قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت آدم علیہ السلام

کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں? جب لامک ایک سو بیاسی سال کا ہوا تو اس کے ہاں ”نوح علیہ السلام“ کی ولادت ہوئی? نوح علیہ السلام کی ولادت کے بعد لامک پانچ سو پچانوے سال مزید زندہ رہا اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں? جب نوح علیہ السلام کی عمر پانچ سو سال ہوئی تو اُن کے بیٹے حام، سام اور یافث پیدا ہوئے? مذکورہ بالا تفصیلات بائبل کے بیانات کا خلاصہ ہے?
ان معلومات کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ آسمان سے نازل کردہ وحی میں سے (بغیر تبدیلی کے) محفوظ ہیں? اکثر علمائے کرام نے ان پر تنقید کی ہے? معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے بعض علماءنے تفسیر کے طور پر یہ تفصیلات اصل کتاب میں اپنی طرف سے شامل کردی ہیں? ان میں بہت سی غلطیاں بھی ہیں، جیسے کہ ہم آئندہ انہیں ان کے مقام پر ذکر کریں گے? (ان شاءاللہ)
امام ابن جریر? نے اپنی تاریخ کی کتاب میں کسی کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ آدم علیہ السلام اور حواءعلیھاالسلام کے ہاں دو دو کرکے چالیس بچے پیدا ہوئے? ایک قول کے مطابق ایک سو بیس جوڑے پیدا ہوئے? ہر بارایک لڑکے اور ایک لڑکی کی ولادت ہوتی تھی? اس کے بعد انسانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا گیا اور وہ زمین میں بکھر گئے اور دور دور تک آباد ہوگئے? جیسے کہ اللہ تعالی? نے فرمایاہے:
”لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اُس سے اُس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیے?“ (النسائ:1/4)
مورخین فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے فوت ہونے تک ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد وغیرہ کی تعداد چار لاکھ افراد تک پہنچ چکی تھی? (واللہ اعلم)
صحیحین کی جس حدیث میں سفر معراج کا ذکر ہے، اس میں بیان ہے کہ رسول اللہ? پہلے آسمان میں آدم علیہ السلام سے ملے? تو انہوں نے فرمایا:”نیک نبی اور نیک بیٹے کو خوش آمدید?“ آدم علیہ السلام کے دائیں طرف بھی بہت سے افراد تھے اور بائیں طرف بھی بہت سے افراد تھے? آپ جب دائیں طرف دیکھتے تو (خوش ہوکر) ہنس پڑتے اور بائیں طرف نظر اُٹھاتے تو روپڑتے? (نبی علیہ السلام نے فرمایا:) میں نے کہا:”جبریل! یہ کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے فرمایا:” یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں? جب وہ دائیں طرف جنتی روحوں کو دیکھتے ہیںتو مسکرادیتے ہیں اور جب بائیںطرف جہنمی روحوں کو دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں?“
صحیح البخاری‘ ا?حادیث الا?نبیائ‘ باب ذکر ادریس علیہ السلام الخ‘ حدیث:3342 وصحیح مسلم‘ الایمان‘ باب الاسراءبرسول اللہ? الخ‘ حدیث:163
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمایا: ”میں یوسف علیہ السلام کے پاس سے گزرا، تو میں نے دیکھا کہ انہیں آدھا حسن و جمال عطا ہوا ہے?“ اس کی وضاحت بعض علماءنے اس طرح کی ہے کہ انہیں آدم علیہ السلام سے آدھا حُسن ملا تھا اور یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی? نے خود اپنے دست مبارک سے تخلیق فرمایا اور ان میں روح ڈالی? اللہ تعالی? (اس اہتمام کے ساتھ) جسے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت آدم علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.