قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت عیسی علیہ السلام

ارشاد ربانی ہے:
”یہ ہیں عیسی? ابن مریم اور یہ ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہیں? اللہ کی شان
کے لائق نہیں کہ اس کی اولاد ہو? وہ تو بالکل پاک ذات ہے? وہ تو جب کسی کام کے سرانجام دینے
کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہوجا! وہ اسی وقت ہوجاتا ہے?“ (مریم: 35'34/19)
قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی پوری تاکید کے ساتھ یہی بات بیان فرمائی گئی ہے، مثلاً ارشاد باری تعالی? ہے:
”(اے محمد!) یہ ہم تم کو (اللہ کی) آیتیں اور حکمت بھری نصیحتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں? عیسی? کا
حال اللہ کے نزدیک آدم جیسا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے اُن کا قالب بنایا، پھر فرمایا کہ
(انسان) ہوجا تو وہ (انسان) ہوگئے? (یہ بات) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے? سو تم
ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا? پھر اگر یہ لوگ عیسی? کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو
حقیقت حال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو اُن سے کہنا کہ آؤ، ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں? تم
اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اورتم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (اللہ سے) دعا و
التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں? یہ تمام بیانات صحیح ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور
بیشک اللہ غالب اور صاحب حکمت ہے‘ سو اگر یہ لوگ پھر جائیں تو اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے?“
(آل عمران: 63-58/3)
یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں، جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی? سے بحث و مناظرہ کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا? یہ وفد ساٹھ افراد پر مشتمل تھا جن کے سربراہ تین افراد تھے جن کے نام عاقب، سید اور ابو حارثہ بن علقمہ تھے? انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں نبی اکرم ? سے بات چیت شروع کی تو اللہ تعالی? نے سورہ? آل عمران کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں جن میں حضرت مریم علیھاالسلام کے حالات اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کا بیان ہے?
ان آیات میں اللہ تعالی? نے رسول اللہ? کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ آپ پر ایمان نہ لائیں اور آپ کی پیروی نہ کریں تو ان سے مباہلہ کیجیے? لیکن جب انہوں نے رسول اللہ? کا عزم و ارادہ دیکھا تو مباہلہ سے باز آگئے اور صلح کی پیش کش کرنے لگے? ان کے سردار عاقب نے وفد کو مخاطب کرکے کہا: اے عیسائیوں کی جماعت! تمہیں خوب معلوم ہے کہ محمد? نبی اور رسول ہیں? انہوں نے تمہارے نبی کے متعلق خوب تفصیلی باتیں بیان فرمائی ہیں? تمہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ جس قوم نے بھی کسی نبی سے مباہلہ کیا ہے وہ نیست و نابود ہوگئی، لہ?ذا اگر تم بھی مباہلہ کروگے تو تباہ ہوجاؤ گے? اس لیے اگر تم اپنے ہی دین و عقائد پر قائم رہنا چاہتے ہو تو رسول اللہ? سے اجازت لے کر اپنے وطن لوٹ جاؤ? انہوں نے سردار کی بات مان لی اور رسول اللہ ? سے اجازت لے لی کہ وہ جزیہ دے کر اپنے دین پر قائم رہنا چاہتے ہیں? آپ نے جزیہ کی وصولی کے لیے ان کے ساتھ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت عیسی علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.