قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملک شام کی طرف ہجرت‘
مصر میں داخلہ اور ارض مقدس میں قیام

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کی ہٹ دھرمی‘ انکار اور کفر پر اصرار دیکھا تو نا امید ہوکر ہجرت کا ارادہ فرما لیا?ارشاد باری تعالی? ہے:
”پس اُن پر (ایک) لوط ایمان لائے اور (ابراہیم) کہنے لگے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف
ہجرت کرنے والا ہوں‘ بے شک وہ غالب، حکمت والا ہے? اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب
عطا کیے اور ان کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب (مقرر) کردی اور اُن کو دنیا میں اس کا صلہ عطا کیا اور
وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے?“ (العنکبوت: 27,26/29)
مزید ارشاد ہے:
”اور ابراہیم اور لوط کو اُس سر زمین کی طرف بچا نکالا جس میں ہم نے جہان والوں کے لیے برکت
رکھی ہے? اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کیے اور مزید براں یعقوب بھی? اور سب کو نیک بخت کیا
اور اُن کو پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور اُن کو نیک کام کرنے اور نماز قائم کرنے
اور زکو?ة دینے کا حکم بھیجا اور وہ ہماری عبادت کیا کرتے تھے? (الا?نبیائ: 73-71/21)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی قوم سے جدائی اختیار کرلی اور ان کے ملک سے ہجرت فرمالی? آپ کی زوجہ محترمہ کے اولاد نہیں ہوئی تھی، اس لیے آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی? بلکہ آپ کے ساتھ آپ کے بھتیجے حضرت لوط بن ہاران بن آزر تھے? بعد میں اللہ تعالی? نے آپ کو بھی نیک اولاد عطا فرمائی اور نبوت و کتاب آپ کی نسل میں مقرر فرما دی? یعنی آپ کے بعد مبعوث ہونے والا ہر نبی آپ ہی کی اولاد سے تھا اور آپ کے بعد نازل ہونے والی ہر کتاب آپ کی نسل کے کسی فرد ہی پر نازل ہوئی? یہ آپ کو اللہ کی طرف سے انعام ملا کیونکہ آپ نے اس کی رضا کے لیے اپنے وطن، خاندان اور قبیلے کو چھوڑ دیا تھا اور ہجرت کرکے اس مقام پر تشریف لے گئے تھے، جہاں آپ اپنے رب کی عبادت کرسکتے تھے اور لوگوں کو اس کی طرف بلا سکتے تھے?
حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کرکے جس علاقے میں گئے وہ شام کا ملک تھا? اس کے بارے میں اللہ تعالی? نے فرمایا ہے:
”اس زمین کی طرف نکالا? جس میں ہم نے جہان والوں کے لیے برکت رکھی ہے?“
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ، ابو العالیہ، قتادہ رحمة اللہ علیہما اور دیگر حضرات نے یہی فرمایا ہے? تفسیر الطبری‘61/10 تفسیر سورة الا?نبیائ‘ آیت: 71 جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کی رائے یہ ہے کہ برکت والی زمین سے مراد مکہ مکرمہ ہے، کیونکہ اللہ تعالی? کا ارشاد ہے:
”پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکے میں ہے‘ بابرکت
اور جہان والوں کے لیے (موجب) ہدایت ہے?“ (آل عمران: 96/3) تفسیر
الطبری‘62/10 تفسیر سورة الا?نبیائ‘ آیت: 71

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت ابراہیم علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.