قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت نُوح علیہ السلام

رسول اللہ ? نے اسی وجہ سے صدیق? کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی، وہ (اس کی طرف آتے ہوئے) جھجکا مگر ابو بکر? کی زبان ذرا نہیں رُکی (فوراً قبول کرلیا?“)
البدایة و النھایة: 101/1
یہی وجہ ہے کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں اجتماع کے موقع پر آپ? کی بیعت بھی فوراً ہوگئی? حاضرین کو سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنُھم کی نظر میں آپ? کی افضلیت بالکل ظاہر اور واضح تھی? اور خود رسول اللہ ? نے پہلے حضرت ابو بکر صدیق? کی خلافت کے بارے میں تحریر لکھوانے کا ارادہ فرمایا? پھر یہ فرماتے ہوئے ارادہ ترک فرمادیا کہ ”اللہ اور مومن ابوبکر? کے سوا کسی پر راضی نہیں ہوں گے?“
صحیح مسلم‘ فضائل الصحابہ‘ باب من فضائل ا?بی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ‘ حدیث: 2383 وسنن ا?بی داود‘ السنة‘ باب فی استخلاف ا?بی بکر‘ حدیث: 4660
نوح علیہ السلام کے کافروں نے اپنے نبی اور مومنوں کے بارے میں کہا: ”اور ہم پر تمہاری کوئی فضیلت ہمیں نظر نہیں آتی?“ (ھود: 27/11) اس کا مطلب یہ تھا کہ ایمان لانے کے بعد تمہیں ہم پر کوئی برتری حاصل نہیں ہوئی ”بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں?“
? نوح علیہ السلام کا مشفقانہ خطاب: آپ نے قوم کی طرف سے انتہائی سخت اور ناقابل برداشت رویے کے باوجود بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ انہیں سمجھانے اور غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
”اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے
مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے تو کیا ہم اس (کو ماننے)
کے لیے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں جبکہ تم اس سے ناخوش ہورہے ہو?“ (ھود: 28/11)
یہ ان سے خطاب کرنے میں نرم اسلوب کا انداز ہے اور انہیں حق کی طرف بلانے میں نرم رویے کا اظہار ہے جیسے اللہ تعالی? نے حضرت موسی? اور ہارون علیہما السلام سے فرعون کی بابت فرمایا تھا:
”اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے?“ (طہ?: 44/20)
اللہ تعالی? نے آخرالزمان پیغمبر حضرت محمد ? کو بھی نرم اسلوب اور نرم رویہ اپنانے کی ہدایات فرمائی تھیں?
ارشاد باری تعالی? ہے:
”(اے پیغمبر!) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے
طریقے سے اُن سے مناظرہ کرو?“ (النحل: 125/16)
حضرت نوح علیہ السلام کا مذکورہ بالا خطاب بھی اسی قبیل سے ہے? یعنی میں تمہیں ایسی چیز پہنچا رہا ہوں جس میں تمہارا دنیا اور آخرت کا فائدہ ہے اس عمل کے بدلے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا? میں یہ چیز صرف اللہ سے مانگتا ہوں? اس کا ثواب میرے لیے بہتر ہے اور وہ اس سے زیادہ باقی رہنے والا ہے جو کچھ تم مجھے دے سکتے ہو? نوح علیہ السلام نے فرمایا:

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت نُوح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.