قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت نُوح علیہ السلام

ان کی فطرت ایسی بن گئی تھی کہ جسے ایمان اور حق کی قبولیت کسی صورت گوارا نہ تھی? اسی لیے نوح علیہ السلام نے فرمایا:
”(اے اللہ) ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی بدکار اور ناشکر گزار ہوگی?“ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کہا:
”اے نوح! تم نے ہم سے جھگڑا تو کیا اور جھگڑابھی بہت کیا? لیکن اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں
ڈراتے ہو وہ ہم پر لا نازل کرو? نوح نے کہا اس کو تو اللہ ہی چاہے گا تو نازل کرے گا? اور تم (اس کو
کسی طرح) ہرا نہیں سکتے?“ (ھود: 33,32/11)
یعنی عذاب لانا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ? وہی ہے جو کسی کا م سے عاجز نہیں اور کوئی کام اس کے لیے مشکل نہیں بلکہ وہ جس چیز کو [کُن±] کہتا ہے، وہ ہوجاتی ہے?
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مزید مطمئن کرنے کے لیے فرمایا:
”میری خیر خواہی تمہیں کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں
بشرطیکہ اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو? وہی تم سب کا پروردگار ہے اور اسی کی طرف لوٹائے
جاؤ گے?“ (ھود: 34/11)
یعنی اللہ تعالی? جسے آزمائش میں ڈالنا چاہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا? وہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت سے محروم رکھتا ہے?
وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ غالب اور حکمت والا ہے? وہی جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے اور کون گمراہی کے لائق ہے? اسی کی حکمت کامل اور اسی کی دلیل باطل شکن ہے?

طوفان نوح کے اسباب اور کشتی بنانے کا حکم

حضرت نوح علیہ السلام نے دن رات انتھک محنت کی اور قوم کودعوت توحید دی مگر ساڑھے نو سو سال کی اس بے مثال جدو جہد کے بعد بھی قوم نے دعوت ایمان قبول نہ کی بلکہ الٹا عذاب کا مطالبہ کردیا? ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے (لاچکے) ان کے سوا اور کوئی
ایمان نہیں لائے گا تو جو کام یہ کررہے ہیں، اُن کی وجہ سے غم نہ کھاؤ?“ (ھود: 36/11)
اس میں قوم کی بدسلوکی پر آپ کے لیے تسلی ہے اور قوم کے بارے میں یہ بتا کر کہ اب مزید افراد ایمان نہیں لائیں گے، یہ کہا گیا ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا اس پر غم نہ کریں کیونکہ اللہ کی مدد پہنچنے والی ہے اور عجیب واقعات پیش آنے والے ہیں?ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے رُو برو بناؤ? اور جو لوگ ظالم ہیں ان کے بارے میں ہم
سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ ضرور غرق کردیے جائیں گے?“ (ھود: 37/11)
اس کی وجہ یہ تھی کہ جب نوح علیہ السلام ان لوگوں کی اصلاح سے مایوس ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ ان میں خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی، کیونکہ انہوں نے ہر قول و فعل کے ذریعے سے ہر طرح آپ کو تکلیفیں پہنچائیں، مخالفت اور تکذیب کی، تب آپ نے ان پر اللہ کا غضب نازل ہونے کی دعا کی?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت نُوح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.