قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت نُوح علیہ السلام

مشن جاری رکھتے ہیں کیونکہ ان کی تسلی اور تشفی کے لیے ان کے رب نے بڑا شاندار اہتمام فرمایا ہے? ارشاد باری تعالی? ہے:
”آپ فرما دیجیے! ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو?“
(المائدة: 100/5)
یعنی کفر و شرک کی غلاظتوں میں لتھڑے یہ لاکھوں کافران چند مومنوں کے برابر نہیں ہیں? بلکہ داعیانِ حق کی حمایت، ان کی تسلی اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا: ”لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں?“ (الا?عراف: 187/7) مزید فرمایا: ”لیکن اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں?“ (الا?نعام: 111/6) ”اور ان میں اکثر لوگ ایمان والے نہیں?“ (الشعرائ: 67/26)
امام الانبیاءعلیہم السلام نے داعیان حق کو ایمان والوں کی قلت ہونے پر تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ”مجھ پر (پہلی) امتیں پیش کی گئیں تو میں نے دیکھا کہ ایک نبی کے ساتھ دس سے کم پیروکار ہیں، کسی کے ساتھ ایک دو ایمان والے ہیں اور کسی کے ساتھ ایک بھی مومن نہیں?“ (صحیح مسلم‘ الایمان‘ باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنة.... حدیث: 220)
لہ?ذا اہل توحید کے لیے افراد کی قلت پریشانی کا باعث نہیں بنتی اور نہ وہ کثرت افراد سے کبر و غرور میں مبتلا ہوتے ہیں?
? سنت الہ?ی کا اتمام اور کافروں پر بددعا کا جواز: قوموں کے بارے میں اللہ تعالی? کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ ان میں رسول بھیج کر، کتب نازل کرکے انہیں ایمان لانے اور راہ حق کو اپنانے کا موقع دیتا ہے? جب نبی اپنی قوم کو پیغام ربانی پہنچا دیتا ہے اور اس کی تبلیغ مکمل ہوجاتی ہے‘ تو اللہ تعالی? کا فیصلہ اور وعدہ اس قوم پر پورا ہوجاتا ہے? جب تک مومن قوم میں موجود رہتے ہیںان کی مہلت باقی رہتی ہے? لیکن جیسے ہی معاشرہ صالح لوگوں سے خالی ہوجاتا ہے، بدکردار اور گناہ گاروں پر عذاب الہ?ی آجاتا ہے? جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے ساتھ بھی ہوا? نوح علیہ السلام مومنوں کو لے کر کشتی میں سوار ہوکر بستی سے نکل گئے تو باقی لوگ غرقاب کردیے گئے?
حضرت نوح علیہ السلام کے قصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کفار پر اتمامِ حجت ہوجائے، ان کی سرکشی اور بدمعاشی حد سے بڑھ جائے اور مومن مغلوب ہوجائیں تو کفار کے خلاف بددعا کی جاسکتی ہے? جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے التجا کی تھی: ”(اے میرے رب) میں بے بس ہوں تو میری مدد کر?“ (القمر: 10/54)
نیز دعا کی:
”اے میرے رب! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ? اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو
(یقینا) یہ تیرے (اور) بندوں کو (بھی) گمراہ کردیں گے اور یہ کافر اور ڈھیٹ کافروں ہی کو جنم
دیں گے?“ (نوح: 27,26/71)
نبی اکرم? نے امت محمدیہ کو کفار کے غلبے اور ان کے شر کے عروج پر دعائے قنوت نازلہ مانگنے کا

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت نُوح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.