قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت صالح علیہ السلام

انہوں نے اپنی آنکھوں سے معجزہ ظاہر ہوتے دیکھ لیا تو انہیں اس کی عظمت کا احساس ہوا اور وہ مرعوب ہوگئے? یہ اللہ کی قدرت کی ایک واضح نشانی اور حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کا ناقابل تردید ثبوت تھا? چنانچہ قوم کے کچھ لوگ ایمان لے آئے? لیکن اکثر لوگ کفر و ضلالت اور ہٹ دھرمی پر اڑے رہے? اسی لیے اللہ تعالی? نے فرمایا: ?فَظَلَمُو±ا بِھَا? یعنی اس کا انکار کیا? اس کو دیکھ کر حق کی پیروی نہیں کی? اس سے مراد ان کی اکثریت کا عمل ہے?
وہ اونٹنی ان میں موجود رہی? اِن کے علاقے میں جہاں سے چاہتی چرتی اور جب کنویں پر پانی پینے جاتی تو کنویں کا سارا پانی پی لیتی? چنانچہ لوگ اپنی باری والے دن اگلے دن کے لیے بھی پانی بھر لیتے تھے? وہ لوگ اس کا دودھ پیتے اور وہ سب کے لیے کافی ہوجاتا? اس لیے آپ نے ان سے فرمایا: ”(ایک دن) اس کی پینے کی باری ہے اور ایک معین روز تمہاری باری?“
ارشاد باری تعالی? ہے: ”ہم اونٹنی ان کے لیے آزمائش بناکر بھیجنے والے ہیں?“ آزمائش اس لحاظ سے تھی کہ کیا وہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی ایمان لاتے ہیں یا نہیں؟ ?فَار±تَقِب±ھُم±? ” پس انتظار کیجیے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟“ اور ان کی طرف سے تکلیف دی جائے تو صبر کیجیے اور اُن کو آگاہ کردیجیے کہ ان میں پانی کی باری مقرر کردی گئی ہے? ہر (باری والے کو اپنی) باری پر آنا چاہیے?اور صالح علیہ السلام نے فرمایا:
”تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے یعنی یہی اللہ کی اونٹنی تمہارے
لیے معجزہ ہے‘ سو اسے (آزاد) چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے
ہاتھ بھی نہ لگانا ورنہ دردناک عذاب تمہیں پکڑ لے گا?“ (الا?عراف: 73/7)اور مزید فرمایا:
”اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی (معجزہ) ہے لہ?ذا اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی
زمین میں (جہاں چاہے) چرے اور اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب
آپکڑے گا?“ (ھود: 64/11)
? معجزے کی بے حرمتی: ایک عرصہ تک یہ معاملہ یونہی چلتا رہا? آخر ان کے سردار جمع ہوئے اور مشورہ کے بعد متفقہ فیصلہ کیا کہ اونٹنی کو قتل کردیں تاکہ اس سے جان چھوٹے اور انہیں سارا پانی مل جائے?
اللہ تعالی? کا ارشاد ہے:
”آخر اُنہوں نے اونٹنی (کی کونچوں) کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے
لگے کہ صالح! جس چیز سے تم ہمیں ڈراتے تھے اگر تم (اللہ کے) پیغمبر ہو تو اُسے ہم پر لے آؤ?“
(الا?عراف: 77/7)
سازشی قوم نے اللہ کے معجزے پر ایمان لانے کی بجائے اس پر ظلم و عدوان کیا اور اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا بندوبست کردیا?
اللہ تعالی? نے فرمایا:
”(قوم) ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب (پیغمبر کو) جھٹلایا? جب اُن میں سے ایک نہایت بدبخت
اُٹھا‘ تو اللہ کے پیغمبر (صالح) نے اُن سے کہا کہ اللہ کی اونٹنی اور اس کی پینے کی باری سے ڈرو (اور

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت صالح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.