قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت شمویل علیہ السلام

بشارت سمجھی جاتی تھی? ”آل موس?ی اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ”بھی اس صندوق میں تھا?
? ایک قول کے مطابق اس میں ٹوٹی ہوئی آسمانی تختیوں کے ٹکڑے اور ٹھوڑا سا منّ تھا، جو میدان تیہ میں ان پر نازل ہوتا رہا تھا?
شمویل علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے متعلق قوم سے فرمایا تھا: ”فرشتے اِسے اُٹھا کر لائیں گے?“ یعنی تمہاری نظروں کے سامنے فرشتے اُسے اُٹھالائیں گے تاکہ قدرت الہ?ی کی ایک نشانی ہو اور یہ ثابت ہوجائے کہ بادشاہ کی یہ نامزدگی واقعی اللہ کی طرف سے تھی? اس لیے فرمایا: ”یقینا یہ تمہارے لیے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان دار ہو?“
جب عمالقہ اس صندوق کو تبرکات سمیت لے گئے اور اس پر قابض ہوگئے تو اپنے شہر میں لے جا کر اسے اپنے ایک بت کے نیچے رکھ دیا? صبح کو دیکھا تو صندوق بت کے سر پر تھا? انہوں نے پھر نیچے رکھ دیا? اگلے دن پھر وہ بت کے سر پر تھا? کئی بار ایسا ہونے پر انہیں یقین ہوگیا کہ یہ صورت حال اللہ کی طرف سے ہے? انہوں نے صندوق کو شہر سے نکال کر کسی گاؤں میں بھیج دیا، تو ان کی گردنوں میں بیماری لگ گئی? جب یہ بیماری طویل ہوگئی تو انہوں نے تابوت کو ایک بیل گاڑی میں رکھ کر بیلوں کو ہانک دیا? فرشتے انہیں ہانک کر بنی اسرائیل میں لے آئے? اس طرح نبی کی بتائی ہوئی بات لفظ بلفظ پوری ہوگئی? بائبل میں بھی واقعے کی تفصیل اسی طرح بیان کی گئی ہے اور بہت سے مفسرین نے بھی یہی بات لکھی ہے? لیکن آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اُسے خود اُٹھا کر لائے تھے? (واللہ اعلم)
جب طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا: ”سنو! اللہ تمہیں ایک دریا سے آزمانے والا ہے? جس نے اس سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں ہے اور جو اُسے نہ چکھے وہ میرا ہے? ہاں یہ (اجازت) ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھرلے?“ (البقرة: 249/2)
حضرت عبداللہ بن عباس? اور بہت سے مفسرین اس آیت کی تفسیر کی بابت بیان کرتے ہیں کہ آیت میں مذکور دریا سے مراد دریائے اردن ہے? طالوت اور اس کی فوجوں کا واقعہ اللہ کے نبی کے حکم سے یہیں پیش آیا? انہوں نے اللہ کے حکم سے فوجیوں کی آزمائش کے لیے یہ حکم دیا تھا کہ جو شخص اس دریا کا پانی پیے گا، وہ اس جنگ میں میرے ساتھ نہیں جائے گا? میرے ساتھ وہی چل سکتا ہے جو ایک ہاتھ سے چلو بھر پانی سے زیادہ نہ پیے? لیکن ہوا یہ کہ ”سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا?“
حضرت براءبن عازب? سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھُم ذکر کیا کرتے تھے کہ غزوہ? بدر میں اتنے صحابہ رضی اللہ عنھُم شریک تھے جتنے طالوت کے (مخلص) ساتھی تھے، جنہوں نے ان کے ہمراہ دریا پار کیا اور ان کی تعداد تین سو افراد سے کچھ زیادہ تھی?
صحیح البخاری‘ المغازی‘ باب عدة ا?صحاب بدر حدیث: 3957‘3958
ارشاد باری تعالی? ہے: ”طالوت مومنین سمیت جب دریا سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے: آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں?“ انہیں اپنی تعداد کم دیکھ کر اور دشمن کی تعداد زیادہ دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم قلیل اور کمزور ہونے کی وجہ سے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے? لیکن اللہ تعالی?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت شمویل علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.