قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یُوشع بن نُون علیہ السلام

کی تو ایک (قبیلہ کے نمائندہ) آدمی کا ہاتھ نبی کے ہاتھ سے چپک گیا? آپ نے فرمایا: خیانت تمہارے ہی اندر ہے? تیرا پورا قبیلہ مجھ سے بیعت (اور مصافحہ) کرے? اس کے قبیلے (کے تمام افراد) نے بیعت کی تو دو تین آدمیوں کے ہاتھ چپک گئے? نبی نے فرمایا: خیانت کا مال تمہارے پاس ہے، تم نے ہی خیانت کی ہے? اس پر انہوں نے گائے کے سرجتنا سونے کا ڈلا نکالا اور اسے میدان میں دوسرے مال غنیمت کے ساتھ رکھ دیا? تب آگ آئی اور اسے جلاگئی?
رسول اللہ ? نے فرمایا: ”ہم سے پہلے لوگوں کے لیے غنیمت کا مال حلال نہیں تھا? اللہ نے ہماری کمزوری دیکھ کر اسے ہمارے لیے حلال کردیا?“
مسند ا?حمد‘ 318/2 وصحیح مسلم‘ الجھاد‘ باب تحلیل الغنائم لھذہ الا?مة خاصة‘ حدیث:1747

قوم کی نافرمانی پر عذاب الہ?ی

بہرحال جب آپ اپنے لوگوں کے ساتھ شہر کے دروازے پر پہنچے تو انہیں حکم دیا گیا کہ شہر میں سجدہ کرتے ہوئے‘ یعنی عاجزی کے ساتھ رکوع کی حالت میں جھک کر داخل ہوں اور اس طرح اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں وہ عظیم فتح عطا فرمائی جس کا ان سے وعدہ کیا تھا اور وہ شہر میں داخل ہوتے وقت کہیں: ?حِطَّةµ? یعنی ہماری گزشتہ غلطیاں معاف فرمادے‘ یعنی حکم کی تعمیل میں اس سے پہلے جو کوتاہی ہوئی وہ معاف فرمادے?
رسول اللہ? جب فتح مکہ کے موقع پر شہر میں فاتحانہ داخل ہوئے اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے، اور عاجزی کے ساتھ اللہ کی تعریف اور شکر کررہے تھے? آپ کا سر مبارک اس قدر جھکا ہوا تھا کہ ڈاڑھی کجاوے کو چھو رہی تھی? آپ اللہ کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار فرما رہے تھے جبکہ آپ کے ساتھ پورے طور پر مسلح ایک لشکر جرار تھا، بالخصوص وہ دستہ جسے ”خضرائ“ کا نام دیاگیا تھا? رسول اللہ ? خود اس کے درمیان موجود تھے? پھر جب آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوچکے تو غسل فرما کر آٹھ رکعت نماز ادا کی?
صحیح البخاری‘ التقصیر‘ باب من تطوع فی السفر‘ حدیث: 1103
علماءکا مشہور قول یہی ہے کہ نبی? نے وہ نماز فتح پر شکرانے کے طور پر ادا فرمائی تھی? بعض علمائے کرام نے اسے ضحی (چاشت) کی نماز قرار دیا ہے? ان حضرات نے یہ موقف غالباً اس لیے اختیار کیا ہے کہ یہ نماز ضحی (چاشت) کے وقت ادا کی گئی تھی?
اس کے برعکس بنی اسرائیل کو جو حکم دیا گیا تھا، انہوں نے قولی اور عملی طور پر اس کی خلاف ورزی کی? وہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہوئے اور ان کی زبان پر شکر و استغفار کے کلمات کی بجائے یہ (بے معنی) الفاظ تھے: [حَبَّةµ فِی± شَع±رَةٍ] ”بال میں دانہ“ یا [حِن±طَةµ فِی± شَع±رَةٍ] ”بال میں گندم?“
خلاصہ یہ ہے کہ انہیں جو حکم دیاگیا تھا، انہوں نے اس کو تبدیل کیا اور اس کا مذاق اُڑایا? اللہ تعالی? نے سورہ? اعراف میں ان کا واقعہ یوں بیان فرمایا:

صفحات

متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.