قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: ”قریب ہے کہ اللہ تعالی? ان سب کو میرے پاس پہنچا دے?“ یعنی یوسف، بنیامین اور روبیل (روبن) کو میرے پاس واپس لے آئے? ”وہی علم و حکمت والا ہے?“ یعنی پیارے بیٹوں کی جدائی میں میرا جو حال ہے‘ اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اللہ جو کچھ کرتا ہے اور جو فیصلے فرماتا ہے وہ حکمت پر مبنی ہوتے ہیں? ”پھر انہوں نے اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا اور کہا: ”ہائے یوسف!“ نئے غم کی وجہ سے پرانا غم بھی تازہ ہوگیا اور رنج والم کے جو جذبات دل میں موجود تھے، ان میں شدت پیدا ہوگئی?
اللہ تعالی? نے فرمایا: ”ان کی آنکھیں رنج و غم کے باعث سفید ہوچکیں تھیں?“ یعنی بہت زیادہ رونے کی وجہ سے ایسا ہوا? ?فَھُوَ کَظِی±مµ? ”اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے?“ یعنی غم کی شدت اور حضرت یوسف علیہ السلام سے ملنے کی شدید خواہش کی وجہ سے ان کا دل غم سے لبریز ہوگیا?
تفسیر ابن کثیر: 347/4‘ تفسیر سورہ? یوسف‘ آیت: 84'83
جب آپ کے بیٹوں نے آپ کی جدائی کے رنج و الم میں اس طرح غلطاں و پیچاں دیکھا تو آپ پر ترس کھاتے ہوئے کہا: ”واللہ! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد ہی میں لگے رہیں گے یہاں تک کہ گھل جائیں یا ختم ہی ہوجائیں?“ یعنی اگر آپ اسی طرح یوسف کو یاد کرتے رہے تو آپ کا جسم لاغر ہوجائے گا اور قوت ختم ہوجائے گی? اس لیے آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ کچھ حوصلہ کریں? آپ نے فرمایا: ”میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں? مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے?“ آپ نے بیٹوں سے فرمایا: میں اپنی مصیبت کی شکایت تم سے تو نہیں کر رہا نہ کسی اور انسان سے شکایت کر رہا ہوں? میں تو اللہ عزوجل سے شکایت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ میری مشکلات اور غم ختم فرمادے گا? مجھے یقین ہے کہ یوسف کا خواب سچا ہو کر رہے گا اور اس کے مطابق میں اور تم سب اسے ضرور سجدہ کریں گے? اسی لیے فرمایا:” مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے?“
پھر آپ نے انہیں یوسف اور بنیامین کی تلاش کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: ”میرے پیارے بچو! تم جاؤ او یوسف اور اس کے بھائی کو پری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا? یقینا اللہ کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں?“ یعنی مصیبت کے بعد راحت کے حصول سے مایوس نہ ہوں? اللہ کی رحمت سے اور مشکلات سے نجات مقدر ہونے سے مایوسی تو کافروں کا کام ہے?
? بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی بپتا سناتے ہیں: حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ایک بار پھر قحط سالی سے تنگ آکر آپ کے پاس غلے کے حصول کے لیے حاضر ہوتے ہیں? ا س بار حضرت یوسف علیہ السلام ان کو حقیقت سے آشنا کرتے ہیں اور تمام اہل و عیال کو مصر لانے کا مطالبہ کرتے ہیں‘ اللہ تعالی? نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”جب وہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی
مشکلات کا سامنا ہے اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں? آپ ہمیں (اس کے عوض) پورا غلہ دیجیے اور
خیرات کیجیے کہ اللہ خیرات کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے? (یوسف نے) کہا: تمہیں معلوم ہے کہ

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.