قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

اللہ تعالی? نے اس واقعہ میں موجود نشانیوں، حکمتوں، نصائح اور دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے? پھر حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کے بھائیوں کے حسد کا تذکرہ فرمایا ہے? وہ سمجھتے تھے کہ ان کے والد ان سب کی نسبت حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے سگے بھائی بنیامین سے زیادہ محبت رکھتے ہیں? حالانکہ وہ بزعم خویش اس بات کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان سے محبت کی جائے کیونکہ وہ ایک بڑی جماعت ہیں? اس لیے انہوں نے کہا: ہمارے والد واضح غلطی پر ہیں کہ ہم سب کی نسبت ان دونوں کو محبت کے معاملے میں ترجیح دیتے ہیں?
پھر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو قتل کردیں یا کسی ایسی دور دراز جگہ پہنچادیں جہاں سے واپس نہ آسکیں تاکہ والد کی محبت انہی کے لیے ہو کر رہ جائے اور انہیں زیادہ محبت اور توجہ حاصل ہو? ان کا ارادہ یہ تھا کہ بعد میں توبہ کرلیں گے?
جب انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا اور اس پر اتفاق کرلیا تو ”ان میں سے ایک نے کہا“ ”یوسف کو قتل نہ کرو?“
مجاہد? کہتے ہیں: یہ کہنے والا شمعون تھا? سُدی? کہتے ہیں: وہ یہودا تھا? قتادہ اور محمد بن اسحاق رحمة اللہ علیہما کہتے ہیں: وہ سب سے بڑا بھائی یعنی روبیل (روبن) تھا? بائبل میں اس کا قائل رابن ہی کو بتایا گیا ہے? (پیدائش، باب 37، فقرہ: 21) اس نے کہا: ”اسے کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر نکال کر (دوسرے ملک میں) لے جائے?“ تفسیر ابن کثیر: 319/4 تفسیر سورہ? یوسف‘ آیت: 10
یعنی کوئی آنے جانے والا مسافر اسے لے جائے گا? ?اِن± کُن±تُم± ف?عِلِی±نَ? یعنی اگر تمہیں ضرور وہ کام کرنا ہے جو کہہ رہے ہو، تو جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ کرو کیونکہ یہ کام اسے قتل کرنے یا کہیں دور چھوڑ کر آنے سے آسان ہے?
اس رائے پر اتفاق ہوگیا تو انہوں نے اپنی اس تدبیر کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کردی‘ ارشاد باری تعالی? ہے:
”کہنے لگے کہ اباجان! کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے‘ حالانکہ
ہم اس کے خیر خواہ ہیں? کل اُسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے کہ خوب پھل کھائے اور کھیلے کودے‘ ہم
اُس کے نگہبان ہیں? انہوںنے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کیے دیتا ہے کہ تم اُسے لے جاؤ (یعنی وہ
مجھ سے جدا ہوجائے) اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم (کھیل میں) اُس سے غافل ہوجاؤ اور اُسے
بھیڑیا کھا جائے? وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں‘ جبکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں‘ اُسے
بھیڑیا کھا گیا‘ تب تو ہم بڑے نقصان میں پڑگئے?“ (یوسف: 14-11/12)
انہوں نے اپنے والد سے مطالبہ کیا کہ ان کے ساتھ ان کے بھائی یوسف کو بھی بھیج دیں اور ظاہر یہ کیا کہ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ یوسف بھی ان کے ساتھ جا کر کھیل کود آئیں اور تفریح کرلیں اور جو بات ان کے دل میں تھی، وہ تو صرف اللہ ہی جانتا تھا? ان کے والد نے فرمایا: بیٹو! مجھ سے تو اس کی جدائی گھڑی بھر برداشت نہیں ہوتی? اس کے علاوہ مجھے یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ تم اپنے کھیل کود میں مشغول ہو کر اس سے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.