عشق بازی ہے اہل ہمت کی

عشق بازی ہے اہل ہمت کی

جب سے اس زندگی سے پیار نہیں
دل میں پہلا سا وہ خمار نہیں

غم تو لاکھوں ہیں دامن دل میں
بس خوشی ہے جو پائیدار نہیں

جو نا واقف ہو ہجر کے غم سے
وہ جہاں میں وفا شعار نہیں

" دشمنی دشمنوں سے کیا کرتے ؟ "
دوستوں کا جب اعتبار نہیں !

جذبہ دل پہ اختیار کہاں ؟
جب خود دل پہ اختیار نہیں

جس چمن میں ہے آشیاں اپنا
اس چمن میں ہی کیوں بہار نہیں ؟

ہے محبت اگر گناہ تو ہو
ہم مگر اس سے شرمسار نہیں ! !

عشق بازی ہے اہل ہمت کی
بزدلوں کا یہ کاروبار نہیں

Posted on Feb 16, 2011