محبتوں کا حساب

محبتوں کا حساب

محبتوں کا حساب تھا نا عداوتوں کا شمار تھا
کبھی اس کی ذات عذاب تھی ، کبھی روح کا وہ قرار تھا

میری پیاس اتنی ہی بڑھ گئی کے سراب جتنے ملے مجھے
ہوا دھوکہ جس پے گلاب کا وہ سلگتا ، جلتا شرار تھا

اسے میں نے مُڑ کر صدا نا دی کے پلٹ گیا تھا وہ راہ سے
میں خزاں ہوا تو پتہ چلا ، میری ذات کا وہ نکھار تھا

تُو بھی دور ہے ، میں بھی دور ہوں ، کیوں الگ ہوئے یہ راستے
تیری چاہتوں کا گریز تھا یا میری انا کا حصار تھا

وہ اگر کسی کو ملے کہیں تو کوئی بتا دے اسے ذرا
میرے فن شعر کی بے خودی ، تیرے عشق ہی کا خمار تھا . . . ! ! !

Posted on Feb 16, 2011