اسی کو یاد کرتے ہیں

چلو کچھ دیر ہنستے ہیں

اسی کو یاد کرتے ہیں

جسے ہم ذیست کہتے تھے

کہ لینا سانس بھی جس کے بنا

ہمیں اک جرم لگتا تھا

کہ سنگ جس کے ہر اک لمحہ

خوش و خرم لگتا تھا

جسے ہم زندگی کہتے

جسے تھے شاعری کہتے

غزل کا قافیہ تھا جو

نظم کا جو کے عنوان تھا

وہ لہجہ جب بدلتا تھا

قیامت خیز لگتا تھا

وقت سے آگے چلتا تھا

بلا کا تیز لگتا تھا

جو سایہ بن کے رہتا تھا

جدا اب اس کے رستے ہیں

چلو کچھ دیر ہنستے ہیں

اسی کو یاد کرتے ہیں ،

Posted on Feb 16, 2011