ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی

ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی
جب وہ مہندی رچائے ہاتھوں میں
اپنی آہٹ کے خوف سے لرزاں
سرخ آنچل میں منه چھپائے ہوئے
اپنے خط مجھ سے لینے آئی تھی
اس کی سہمی ہوئی نگاہوں میں
کتنی خاموش التجائیں تھیں
اس کے چہرے کی زرد رنگت میں
کتنی مجبوریوں کے سائے تھے
میرے ہاتھوں سے خط پکڑتے ہی
جانے کیا سوچ کر اچانک وہ
میرا شانہ پکڑ کر روئی تھی
اس کے یاقوت رنگ ہونٹوں کے
کپکپاتے ہوئے کناروں پر
سینکڑوں انکہے فسانے تھے
سرد شمعوں میں دیر تک اکثر
جب یہ منظر دکھائی دیتا ہے
ایک لمحہ حنائی ہاتھوں سے
مجھ کو اپنی طرف بلاتا ہے
ہمنشیں روٹھ کر نہ جا مجھ سے
ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی

Posted on May 06, 2011