دریا سے، کوہسار سے پہلے کی بات ہے


دریا سے، کوہسار سے پہلے کی بات ہے
انساں پر اعتبار سے پہلے کی بات ہے

جُنبش تھی آنکھ میں بھی، بدن میں بھی روح تھی
یہ بات انتظار سے پہلے کی بات ہے

دل میرے اختیار میں ہوتا تو تھا مگر
یہ تیرے اختیار سے پہلے کی بات ہے

کچھ سارباں تھے اور جرس کی صدا بھی تھی
یہ بادِ ریگ زار سے پہلے کی بات ہے

اِک درد تھا کسی کی نشانی دیا ہوا
لیکن یہ تیرے پیار سے پہلے کی بات ہے

اِک آشیاں تھا اس میں پرندے بھی تھے عدیم
یہ موسمِ بہار سے پہلے کی بات ہے

Posted on May 19, 2011