وقتِ سفر قریب ہے

وقت سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں .
بکھرا ہوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں .

پھر جانے ہم ملیں نا ملیں ، ذرا رکو !
میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لوں .

غیروں نے جو سلوک کیے انکا کیا گلہ ،
پھینکے ہیں دوستوں نے جو وہ پتھر سمیٹ لوں .

اَجْمَل بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ ، ،
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لوں . . ،

Posted on Feb 16, 2011