جب دل کی راہ گزر پر نقشِ پا نہ تھا

جب دل کی راہ گزر پر نقشِ پا نہ تھا
جینے کی آرزو تھی مگر حوصلہ نہ تھا

آگے حریم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا

دامان چاک، چاک گلوں کو بہانہ تھا
ورنہ نگاہ و دل میں کوئی فاصلہ نہ تھا

کچھ لوگ شرمسار، خدا جانے کیوں ہوئے؟
ان سے تو روحِ عصر، ہمیں کچھ گِلہ نہ تھا

جلتے رہے خیال، برستی رہی گھٹا
ہاں نازِ آگہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا

سنسان دوپہر ہے، بڑا جی اُداس ہے
کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا

ہر آرزو کا نام نہیں آبروئے جاں
ہر تشنہ لب جمال رخِ کربلا نہ تھا

آندھی میں برگِ گل کی زباں سے ادا ہوا
وہ راز جوکسی سے ابھی تک کہا نہ تھا

Posted on May 07, 2011