ایک نظم سے اقتباس

ایک نظم سے اقتباس

شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے

رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشان کیوں تیری تسبیح کے دانے رہے

شوق بے پرواہ گیا ، فکر فلک پیماں گیا
تیری محفل میں نا دیوانے نا فرزانے رہے

وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے

خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نا وہ مہ کش رہے باقی ، نا مہکانے رہے

رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے

آج ہیں خاموش وہ دشت جنون پرور ، جہاں
رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے

وائے ناکامی ، متاع کاروں جاتا رہا
کاروں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

Posted on Feb 16, 2011