جاگتی رات کے ہونٹوں پہ فسانے جیسے

جاگتی رات کے ہونٹوں پہ فسانے جیسے

جاگتی رات کے ہونٹوں پہ فسانے جیسے ،
ایک پل میں سمٹ آئے ہوں زمانے جیسے ،

عقل کہتی ہے بھلا دو جو نہیں مل پایا ،
دل وہ پاگل کے کوئی بات نا مانے جیسے ،

رستے میں وہی منظر ہیں پرانے اب تک ،
بس کمی ہے تو نہیں لوگ پرانے جیسے ،

آئینہ دیکھ کے احساس یہی ہوتا ہے ،
لے گیا وقت ہو عمروں کے خزانے جیسے ،

رات کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنْسُو ،
مخملی گھاس پہ موتی کے ہوں دانے جیسے . . . ! ! !

Posted on Feb 16, 2011