قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

یہ کیوں کیا جارہا ہے? پھوپھی محبت کی وجہ سے چاہتی تھیں کہ آپ اس کے پاس رہیں‘ اس لیے یہ تدبیر کی?
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آپ گھر سے کھانا چرا کر غریبوں کو کھلا دیا کرتے تھے? اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں? یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا یوسف علیہ السلام پر چوری کاالزام لگانا بھی اسی طرح کی ناروا حرکت ہے، جس طرح گزشتہ بداعمالیاں مثلاً: والد سے بدگمانی، جھوٹ، دھوکا، بھائی پر ظلم اور انہیں کنویں میں گرانا? ان کے مقابلے میں یوسف علیہ السلام کو چور کہہ دینا محض مخفی بُغض کا ایک معمولی سا اظہار ہے? ان لوگوں کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں بے سروپا حکایات بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں?
اس لیے بھائیوں نے کہا: ”اگر اس نے چوری کی ہے تو اس کا بھائی بھی پہلے چوری کر چکا ہے?“ یوسف علیہ السلام نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے ظاہر نہ کیا? جو بات ظاہر نہ کی گئی تھی وہ آپ کے اگلے الفاظ ہیں کہ ”تم بڑے بدقماش ہو اور جو تم بیان کرتے ہو، اللہ ہی خوب جانتا ہے?“
آپ نے حلم و درگزر سے کام لیتے ہوئے یہ بات آہستہ کہی، اونچی آواز سے نہ کہی? تب وہ آپ کی منت سماجت کرنے لگے اور بولے: ”اے عزیز مصر! اس کے والد بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں، آپ اس کے بدلے میں ہم میں سے کسی کو لے لیجیے? ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں? یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے، اس کے سوا دوسرے کی گرفتاری کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ایسا کرنے سے تو ہم یقینا نا انصافی کرنے والے ہوجائیں گے?“ یعنی اگر ہم نے ملزم کو چھوڑ دیا اور بے گناہ کو گرفتار کر لیا تو یہ ظلم ہوگا? ہم نہ خود ظلم کرسکتے ہیں نہ کسی کو ظلم کی اجازت دے سکتے ہیں? ہم تو اسی کو پکڑیں گے جس سے ہمیں اپنا سامان ملا?
? بھائیوں کا باہمی صلاح مشورہ: ارشاد باری تعالی? ہے:
”جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے? سب سے بڑے نے کہا: کیا تم
نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے
میں قصور کر چکے ہو? سو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں‘ میں تو اس جگہ سے ہلوں گا نہیں‘ یا اللہ
میرے لیے کوئی اور تدبیر کرے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے? تم سب والد صاحب
کے پاس جاؤ اور کہو کہ اباجان! آپ کے صاحب زادے نے (وہاں جا کر) چوری کی اور ہم نے تو
اپنی دانست کے مطابق آپ سے (اس کو لے آنے کا) عہد کیا تھا مگر ہم غیب (کی باتوں) کے
(جاننے اور) یاد رکھے والے تو نہیں تھے? اور جس بستی میں ہم (ٹھہرے) تھے وہاں سے (یعنی
اہل مصر سے) اور جس قافلے میں ہم آئے ہیں اس سے دریافت کر لیجیے? اور ہم (اس بیان میں)
بالکل سچے ہیں? (جب انہوں نے آکر یہ بات یعقوب سے کہی تو) انہوں نے کہا: (کہ حقیقت
یوں نہیں ہے) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے بنالی ہے‘ پس صبر ہی بہتر ہے? ہوسکتا ہے کہ اللہ
ان سب کو میرے پاس لے آئے? بے شک وہ دانا (اور) حکمت والا ہے? پھر اُن کے پاس سے
چلے گئے اور کہنے لگے: ہائے افسوس! یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ)
ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور اُن کا دل غم سے بھر رہا تھا? بیٹے کہنے لگے کہ واللہ! اگر آپ یوسف کو

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.