قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

کی یہ تعبیر ظاہر ہوگئی ہے? اور ”میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب مجھے جیل خانے سے نکالا?“ یعنی میں وہاں تنگی اور تفکرات میں تھا، اللہ نے مجھے وہاں سے نکال کر مصر کا بااختیار حاکم بنا دیا? ”اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا?“ یعنی آپ لوگ دور صحرا میں رہ رہے تھے، اب اللہ کے فضل سے میرے پاس آگئے? ”اس اختلاف کے بعد، جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا?“ یعنی وہ واقعات پیش آئے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے? پھر فرمایا: ”میرا رب جو چاہے، اس کے لیے بہترین تدبیر کرنے والا ہے?“ یعنی وہ جب کسی چیز کاارادہ فرماتا ہے تو اس کے اسباب بھی مہیا کر دیتا ہے اور اسے ایسے طریقے سے آسان فرما دیتا ہے کہ بندوں کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ بہترین طریقے سے اپنی عظیم قدرت کے ذریعے سے اسے مقدور فرما دیتا ہے? ”بے شک وہ بہت علم و حکمت والا ہے?“ یعنی وہ تمام معاملات سے باخبر ہے اور اس کی تخلیق، تشریع اور تقدیر سب حکمت پر مبنی ہیں?
? حضرت یوسف علیہ السلام کا انعامات ربّانی پر اظہار تشکر: یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ پر اللہ کی نعمت کی تکمیل ہوگئی ہے اور وہ والدین کے ساتھ اور گھر کے تمام افراد کے ساتھ مل گئے ہیں? انہیں معلوم تھا کہ اس دنیا میں کسی کو دوام حاصل نہیں اور اس جہان کی ہر شے فانی ہے اور تکمیل کے بعد کمی ہی ہوا کرتی ہے? اس لیے آپ نے اللہ تعالی? کی حمد و ثنا فرمائی، جیسے اس کی شان کے لائق ہے? اس کے عظیم فضل و احسان کا اعتراف فرمایا اور اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ جب ان کی وفات کا وقت آئے تو وہ اسلام کی حالت میں فوت ہوں اور اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوں? یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم دعا کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں: ”یااللہ! ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور اسلام پر موت دے?“ یعنی جب بھی ہم فوت ہوں تو اسلام پر قائم ہوں? یہی توجیہ درست ہے?
ممکن ہے آپ نے یہ دعا اپنی وفات کے موقع پر فرمائی ہو? جیسے رسول ? نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت فرمایا تھا: [اَللّ?ھُمَّ فِی الرَّفِی±قِ ال±اَع±ل?ی] یعنی آپ کی روح مبارک کو ملا? اعلی? اور انبیاءو مرسلین جیسے عظیم ساتھیوں سے ملا دیا جائے? اس کے بعد نبی کریم? کی روح پرواز کرگئی?
مسند ا?حمد: 200/6‘ صحیح البخاری‘ المغازی‘ باب آخر مایتکلم بہ النبی?‘
حدیث: 4437
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے صحت و سلامتی کی حالت میں دعا فرمائی ہو کہ اللہ انہیں اسی وقت وفات دے دے کیونکہ ہوسکتا ہے ان کی شریعت میں ایسی تمنا کرنا جائز ہو جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا ایک قول روایت کیا جاتا ہے: ”یوسف علیہ السلام سے پہلے کسی نبی نے موت کی تمنا نہیں کی تھی?“
ہماری شریعت میں موت کی دعا کرنا منع ہے‘ البتہ فتنوں کے وقت جائز ہے جیسے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہُما کی حدیث میں ہے:
”یااللہ! جب تو لوگوں کو فتنے میں ڈالنا چاہے تو ہمیں فتنہ میں مبتلا کیے بغیر فوت کر لینا?“
جامع الترمذی‘ تفسیر القرآن‘ باب و من سورة ص‘ حدیث: 3233‘ مسند ا?حمد: 368/1

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.