قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

”خوب جان لو! اگر پوری امت تمہیں فائدہ دینے کے لیے جمع ہوجائے تو تمہیں کوئی نفع نہیں دے سکتی سوائے اس نفع کے جو اللہ تعالی? نے تمہارے لیے مقدر کردیا ہے? اور اگر سارے لوگ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے متحد ہوجائیں تو تمہیں تمہارے مقدر میں لکھے ہوئے نقصان کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے?“ جامع الترمذی، صفة القیامة‘ حدیث: 2516، و مسند ا?حمد: 293/1
? اولاد کے درمیان عدل و انصاف: حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے ہمیں اولاد کے معاملے میں عدل و انصاف کا درس ملتا ہے? اولاد کے درمیان جہاں مادی وسائل و منافع اور حاجات و ضروریات کی فراہمی میں عدل ضروری ہے وہاں محبت و شفقت میں عدل کرنا بھی لازمی ہے? کیونکہ چھوٹا بچہ نہایت حساس، غیور اور حاسد ہوتا ہے? والدین کی کسی ایک بچے کو ذرا سی زیادہ اہمیت، یا ذرا سا زیادہ پیار و محبت کا برتاؤ دوسرے بچوں کے دل و دماغ میں منفی اثر چھوڑ جاتا ہے اور وہ اپنے ہی بھائی کے حاسد اور دشمن بن جاتے ہیں‘ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا? حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان میں آثار نبوت دیکھتے ہوئے انہیں ذرا سی فوقیت دی تو دیگر بھائی یہ اہمیت و قدر برداشت نہ کرسکے، اور آگے چل کر یہی جذبہ حسد اور دشمنی کا باعث بن گیا?
نبی آخرالزماں? نے اپنی امت کو اولاد کے درمیان عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے کا خصوصی حکم دیا ہے? حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کچھ مال عطا کیا، پھر میری والدہ کی خواہش پر نبی? کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ? کو اس پر گواہ بنائیں? آپ نے دریافت کیا: ”کیا سارے بیٹوں کو ایسا ہی مال دیا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا: نہیں? تو آپ نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو?“
صحیح مسلم، الھبات‘ باب کراھیة تفضیل بعض الا?ولاد فی الھبة‘ حدیث: 1623
لہ?ذا حضرت نعمان کے والد نے وہ مال واپس لے لیا?
? کامیاب زندگی‘ بامقصد زندگی: حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کامیاب زندگی وہی ہے جو بامقصد ہو? اللہ تعالی? نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے? ارشاد باری تعالی? ہے:
”میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے?“ (الذاریات: 56/51)
لہ?ذا جب انسان اس مقصد حیات کو بخوبی سمجھ لیتا ہے اور اللہ تعالی? کی توحید اور اس کی محبت اس کے دل و دماغ میں اثر پذیر ہوجاتی ہے تو پھر وہ قید و بند کی صعوبتوں اور زندگی کی مشکلات و مصائب کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ اللہ تعالی? کی وحدانیت کی دعوت و تبلیغ میں مصروف رہتا ہے‘ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں بھی ساتھیوں کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں اور اپنی مشکلات کو اس راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے?
ایسی بامقصد زندگی گزارنے والا شخص صداقت، دیانت، امانت، شرافت، صبرو تحمل، شکر و رضا اور عفو و درگزر جیسی عالی صفات سے متصف ہوتا ہے? جبکہ اس مقصد حیات کو پس پشت ڈال کر جینے والا شخص،

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.