قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی? نے یوسف کی طرف یہ وحی کی تو بھائیوں کو پتہ بھی نہ چلا?
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ انہیں یہ باتیں بتائیں گے اس وقت وہ آپ کو پہچان نہیں رہے ہوں گے? یہ قول ابن جریر? نے نقل فرمایا ہے?
تفسیر الطبری‘ 211'210/7
جب وہ آپ کو کنویں میں ڈال کر چل دیے تو آپ کی قمیص لے کر اسے خون آلود کر لیا اور عشاءکے وقت جب والد کے پاس لوٹے تو اپنے بھائی کی مزعومہ ہلاکت پر رو رہے تھے? اسی لیے ایک بزرگ نے فرمایا ہے: ”ظلم کی شکایت کرنے والے کے نالہ و شیون سے دھوکا نہ کھاؤ? بعض اوقات ظالم بھی رو کر دکھا دیتے ہیں? جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائی رات کو اپنے والد کے پاس روتے ہوئے آئے تھے?“ ?عِشَآئً? کا مطلب یہ ہے کہ رات کو اندھیرا چھا جانے کے بعد آئے تاکہ ان کے دھوکے پر پردہ پڑ جائے? اور کہنے لگے کہ اباجان! ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے? یعنی اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر خود دوڑتے ہوئے دور نکل گئے تو ہماری غیر موجودگی میں اسے بھیڑیا کھا گیا? اور ساتھ ہی کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ آپ ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے خواہ ہم سچ ہی کہتے ہوں? یعنی ہم آپ کی نظر میں قابل اعتبار بھی ہوتے تب بھی آپ ہماری اس بات پر یقین نہ کرتے کہ اسے بھیڑیا کھا گیا ہے‘ اب جب کہ ہم لوگ آپ کی نظر میں مشکوک ہیں تو آپ ہم پر کیسے یقین کریں گے؟ آپ نے یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ اسے بھیڑیا کھا جائے گا اور ہم نے آپ کو ضمانت دی تھی کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ بہت زیادہ افراد اس کے ارد گرد موجود ہوں گے? آپ نے تب بھی ہم پر اعتبار نہیں کیا تھا? لہ?ذا موجودہ صورت حال میں ہمیں سچا نہ سمجھنے میں آپ واقعی معذور ہیں? اور وہ اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے یوسف علیہ السلام کے کرتے پر لہو بھی لگا لائے? یہ جھوٹ موٹ کا خون تھا? کیونکہ انہوں نے ایک میمنا لے کر ذبح کیا تھا اور اس کا خون یوسف علیہ السلام کی قمیص پر لگا کر یہ باور کرانا چاہا تھا کہ یوسف کو بھیڑیے نے کھایا ہے?
مفسرین فرماتے ہیں: انہیں قمیص کو پھاڑنے کا خیال نہ آیا? ان پر شک کی علامت واضح تھیں اس لیے والد کے سامنے ان کی بات نہ بن سکی? آپ جانتے تھے کہ وہ یوسف سے عداوت رکھتے ہیں اور اس بات پر ان سے حسد کرتے ہیں کہ والد کے دل میں ان کی محبت زیادہ ہے کیونکہ ان پر بچپن ہی سے شان اور عظمت کے آثار نظر آتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالی? ان کو شرف نبوت سے نوازنا چاہتا تھا? جب وہ بہلا پھسلا کر انہیں لے گئے تو فوراً ٹھکانے لگانے کی کوشش کی تاکہ انہیں والد کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے دور کردیں پھر‘ جھوٹ موٹ کے غم کا اظہار کرنے کے لیے روتے ہوئے آئے اور یہ ان کی متفقہ سازش تھی? اس لیے حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
”(حقیقت حال یوں نہیں ہے) بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو? اچھا! صبر (کہ وہی)
خوب (ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اُس کے بارے میں اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے?“

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.