اکمل شیخ (5 اپریل 1956ء – 29 دسمبر 2009ء) ایک برطانوی شہری تھے جنہیں 2009ء میں چین میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں سزائے موت دی گئی۔ ان کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بنا، جس میں ذہنی صحت کے مسائل، قانونی عمل اور انسانی حقوق کے امور پر بحث چھڑ گئی۔
اکمل شیخ لندن میں پیدا ہوئے اور پاکستانی نژاد تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی برطانیہ میں گزاری اور بعد میں مختلف کاروباری منصوبوں میں شامل ہوئے۔ وہ زندگی کے مختلف مراحل میں ٹیکسی سروس اور دیگر کاروباروں سے منسلک رہے۔ ان کی کاروباری زندگی میں کئی مشکلات اور ناکامیاں آئیں، جس نے ان کی ذہنی صحت پر بھی اثر ڈالا۔
ان کے خاندان اور دوستوں کے مطابق، اکمل شیخ کئی سالوں سے ذہنی بیماریوں کا شکار تھے۔ ان میں دو قطبی خرابی (بائی پولر ڈس آرڈر) کی علامات ظاہر ہوتی تھیں، جس میں موڈ میں انتہائی تبدیلیاں شامل تھیں۔ انہوں نے کبھی باقاعدہ طور پر علاج نہیں کروایا، جس کی وجہ سے ان کی حالت مزید خراب ہوتی گئی۔
2000 کی دہائی کے وسط میں، اکمل شیخ پولینڈ منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے ایک مسلم کمیونٹی کے ساتھ روابط قائم کیے اور مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس دوران، انہوں نے ایک موسیقی کیریئر شروع کرنے کا ارادہ کیا، جس کے ذریعے وہ دنیا میں امن اور محبت کا پیغام پھیلانا چاہتے تھے۔
2007ء میں، اکمل شیخ نے چین کا سفر کیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ وہاں اپنے موسیقی کے خواب کو پورا کر سکیں گے۔ ان کا رابطہ کچھ افراد سے ہوا جنہوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کی موسیقی کو عالمی سطح پر پہنچانے میں مدد کریں گے۔ ان افراد نے انہیں کرغزستان کے راستے چین پہنچایا۔
یہ مانا جاتا ہے کہ وہ افراد جنہوں نے اکمل شیخ کو چین لے جانے میں مدد کی، دراصل منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث تھے۔ انہوں نے اکمل کو استعمال کیا، کیونکہ ان کی ذہنی حالت اور نا تجربہ کاری نے انہیں ایک آسان ہدف بنا دیا تھا۔
ستمبر 2007ء میں، اکمل شیخ کو ارومچی کے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا۔ ان کے سامان سے تقریباً چار کلوگرام ہیروئن برآمد ہوئی، جو کہ چین کے قوانین کے مطابق ایک سنگین جرم ہے۔ مقدمے کے دوران، انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے بیگ میں منشیات ہیں اور یہ کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے۔ ان کے وکلاء نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کی ذہنی صحت کا معائنہ کروایا جائے، لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔
چین کے قانونی نظام میں، ذہنی صحت کے مسائل پر غور کرنے کے لیے مخصوص طریقہ کار موجود ہیں۔ تاہم، اکمل شیخ کے معاملے میں، عدالت نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ ذہنی بیماری کا شکار ہیں اور نہ ہی ان کی تشخیص کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا۔ تمام قانونی راستے ختم ہونے کے بعد، 29 دسمبر 2009ء کو اکمل شیخ کو سزائے موت دی گئی۔ ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کے وقت، ان کے خاندان کو اطلاع نہیں دی گئی تھی، جس نے مزید تنازعہ کو جنم دیا۔
برطانوی حکومت نے اکمل شیخ کے معاملے میں متعدد بار چین سے رابطہ کیا۔ وزیر اعظم گورڈن براؤن نے ذاتی طور پر چینی حکام سے رحم کی درخواست کی۔ برطانوی حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ اکمل شیخ کی ذہنی صحت کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی سزا میں نرمی کی جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ریپریو جیسے انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اکمل شیخ کی سزائے موت کی مذمت کی۔ انہوں نے چین میں سزائے موت کے استعمال، قانونی عمل کی شفافیت اور ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ دلائی۔ یورپی یونین نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور چین سے سزائے موت کو روکنے کی درخواست کی۔ یہ معاملہ چین اور یورپی یونین کے درمیان انسانی حقوق کے مسائل پر بحث کا باعث بنا۔
چینی حکومت نے اپنی کارروائی کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور منشیات کی اسمگلنگ ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا مقرر ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے ممالک کو چین کے عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اکمل شیخ کے معاملے نے سزائے موت کے استعمال پر عالمی بحث کو جنم دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ منشیات کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم کے لیے سخت سزائیں ضروری ہیں، جبکہ دوسروں نے سزائے موت کو غیر انسانی اور غیر مؤثر قرار دیا۔ یہ کیس اس سوال کو بھی اٹھاتا ہے کہ ذہنی بیماری کے شکار افراد کو کس حد تک قانونی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق، ذہنی بیماری کے شکار افراد کے ساتھ قانونی نظام میں خصوصی برتاؤ کیا جانا چاہیے۔
چین کے اس اقدام نے بین الاقوامی قانون اور قومی خود مختاری کے درمیان توازن کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا۔ ایک طرف، انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے ہیں، اور دوسری طرف، ہر ملک کا اپنا قانونی نظام اور قوانین ہیں۔
اکمل شیخ کے خاندان نے ان کی سزائے موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے میڈیا کے ذریعے اپنی آواز بلند کی اور عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اکمل کو انصاف نہیں ملا اور ان کے ذہنی صحت کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا۔
اکمل شیخ کا معاملہ بین الاقوامی قانونی نظاموں، انسانی حقوق اور ذہنی صحت کے مسائل پر غور و فکر کا باعث بنا۔ اس نے چین اور برطانیہ کے درمیان سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا کی اور سزائے موت کے استعمال پر بحث کو تیز کیا۔ یہ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی برادری کو ذہنی صحت کے مسائل، قانونی عمل کی شفافیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ مختلف ممالک کے قوانین اور ثقافتوں کے درمیان تفاوت کے باوجود، انسانی وقار اور انصاف کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔
اکمل شیخ: چین میں برطانوی شہری کی سزائے موت کا متنازعہ کیس
Posted on Sep 22, 2024
سماجی رابطہ