14 فروری 2011
وقت اشاعت: 14:21
برونائی
برونائی
تیل کی دولت سے مالا مال، نگارا برونائی دارالسلام اسلامی روایات کا مظہر اور مغربی تہذیب کا سنگم ہے۔ یہ جنوب مشرقی ایشیاءکا سب سے چھوٹا مگر سب سے دولتمند سلطنت ہے۔ اس کے مغرب میں جنوبی چین کا گہرا سمندر اور دیگر تین اطراف میں ملائیشیا کا سراواک کا علاقہ ہے۔ بہتے ندی نالوں، گرتی آبشاروں اور قدرتی حسن کی یہ سرزمین سیاحوں کے لیے خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس میں بے شمار جنگلات اور لاتعداد جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مور، شہد کھانے والے ریچھ، شرارتی بندر اور خطرناک سانپ خاص طور پر شہرت رکھتے ہیں۔جزائر بورنیو کا یہ شمالی خطہ دو ہزار دو سو چھبیس مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں سالانہ سو انچ بارش ہوتی ہے۔ تاہم آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہونے والی اس اسلامی مملکت میں 52 فیصد کا تعلق مالی نسل سے ہے۔ مالی یہاں کی قومی زبان ہے مگر انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ برونائی ڈالر یہاں کی کرنسی ہے۔ برونائی کی آمدنی کا زیادہ حصہ تیل اور گیس سے حاصل ہوتا ہے تاہم ربڑ، گوند، لکڑی اور کالی مرچ دوسرے ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔ دوسرے ممالک جن میں سنگاپور، جاپان، برطانیہ، امریکہ، ملائیشیائ، تھائی لینڈ اور فلپائن شامل ہیں، سے کھانے پینے کا سامان، گاڑیاں، کپڑا، ملبوسات، بجلی کا سامان، تمباکو اور مشروبات درآمد کیے جاتے ہیں۔ سیاحت کی صنعت بھی خاصی زوروں پر ہے۔بندرسری بیگوان یہاں کا دارالحکومت ہے مشہور شہروں میں کوالا بیلات، سیبریا، ٹمبرونگ، برونائی مارا اور توتنگ شامل ہیں۔ برونائی کے لوگوں کی اکثریت ہماری ہی طرح زراعت پیشہ ہے۔ ماہی گیری اور تعمیرات یہاں کے لوگوں کے دیگر اہم پیشوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ برونائی 500 سال پرانی سلطنت ہے۔ جو 1888ء میں برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔ 1959ء میں برطانیہ نے اسے اندرونی طور پر خودمختار بنا دیا اور بالآخر 31دسمبر1983ءکی درمیانی شب کو مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔ برونائی اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس کا رکن ہے۔ عالم اسلام کی ترقی اور خوشحالی اور اسلام سے برونائی کی محبت کا اندازہ اس کے نام سے لگایا جاسکتا ہے، جس کا مطلب ہے ”اسلام اور امن کی جگہ“۔