ایودھیا… بابری مسجد رام مندر تنازع500 سال قدیم بابری مسجد کی ملکیت کے حوالے مختلف عدالتوں میں تقریباً ساٹھ سال کا سفر مکمل کر چکا ہے، بابری مسجد کی 1853 میں تعمیر کے بعد ہی انتہاپسند ہندؤں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، مگر اس تنازع نے شدت اس وقت اختیار کرلی جب دسمبر 1949 میں انتہاپسندوں ہندؤں نے رات کے وقت بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دیں جس کے بعد مسلمانوں اور ہندؤں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حکومت نے اس مسجد کی جگہ کو متنازع قرار دے کر بندکروادیا، جب کہ مقامی مسجد کی جانب سے بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ بابری مسجد کیس کی سماعت پہلے ایودھیا کے ضلع فیض آباد کی عدالت میں ہورہی تھی، لیکن1989 میں ہائی کورٹ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور گزشتہ 21 برسوں سے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ اس کیس کی سماعت کررہی تھی جو تین ججز پر مشتمل ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران کئی جج ریٹائر اور کئی کے تبادلے بھی ہوئے۔ مقدمے کے دوران ہی انتہاپسند ہندو تنظیموں نے بابری مسجد کے خلاف مہم چلائی اور بالآخر 6 دسمبر 1992 میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وشوا ہندو پریشد کے رہنماؤں کی موجودگی میں ہزاروں انتہاپسندو ہندوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا، اس حوالے سے مجرمانہ مقدمہ کی سماعت ایک دوسری عدالت میں چل رہی ہے۔ بابری مسجد کی شہاد ت کے بعد بھارت میں مذہبی فسادات شروع ہوگئے جس میں تقریباً2000 مسلمان جاں بحق ہوئے تھے،عدالت میں وکیل استغاثہ کی جانب سے سب سے پہلے مقامی پولیس اہلکار کو گواہی کے لیے پیش کیا گیا جس نے انتہا پسند ہندؤں کے خلاف گواہی دی اور مقدمات درج کروائے گئے ۔مسجد شہید کرنے کے بعد مرکزی تفتیشی بیورو سی بی آئی نے1993 میں بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے ایڈوانی، سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت49افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیاد پر بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی، اشوک سنگھل، کلیان سنگھ اور شو سینا کے بال ٹھاکرے کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا حکم دیا تھا ۔بابری مسجد کی شہادت کے دس روز بعدہی حکومت کی جانب سے ایک انکوائری کمیشن بھی قائم کیا گیا تھا، جس کو تین ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن کمیشن کی درخواست پر48مرتبہ اس کی مدت میں توسیع کی گئی۔ انکوائری کے دوران بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اس وقت کے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ سمیت دیگر افراد بھی ریٹائرڈ جسٹس ایم ایس لیبرہان کے سامنے پیش ہوئے۔کمیشن میں متعدد مرتبہ توسیع دیے جانے کے باعث لیبرہان کمیشن کافی عرصے سے تنازعات کا شکار رہی اور بالاخر17 سال بعد جسٹس لیبرہان نے30 جون2009 کو رپورٹ بھارتی وزیراعظم کو پیش کردی اور یہ رپورٹ نومبر2009 کو بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ دوسری جانب بابری مسجد کی عدالتی کاروائی بھی جاری تھی اور اپریل2002 سے الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع زمین کے حق ملکیت سے متعلق مقدموں کی سماعت شروع کی اور عدالت نے ماہرین آثار قدیمہ کو حکم دیا کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ متازع جگہ پررام کا مندر تھا یا نہیں ،جس پر اگست2003میں ماہرین آثار قدیمہ نے کہا کہ انہیں مندر کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں لیکن مسلمانوں نے اس کو مسترد کردیا۔ مقدمے کے دوران ہندؤں کی جانب سے54 گواہ پیش کیے گئے جبکہ مسلمانوں کی جانب سے34 گواہ پیش ہوئے، جب کہ دونوں فریقین کی جانب سے15 ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی پیش کیے گئے اور بالآخر بھارتی ہائی کورٹ نے جولائی2010 کو بابری مسجد کا فیصلہ محفوط کرلیا اور اس پرانے تنازع کے حل کے لیے 24 ستمبر کو فیصلہ سنائے جانے کا اعلان کیا گیا، اسی دوران عدالت میں فیصلے کو موخر کرنے کی درخواست کی گئی دائر کی گئی مگرالہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے درخواست کو مسترد کردیا، جس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ ایک ہفتے کے لئے موخر کرنے کے احکامات جاری کردیے اوردرخواست کی سماعت28 ستمبرتک ملتوی کردی۔ 28 ستمبر کے دن بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کافیصلہ ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کو فیصلہ سنانے کے احکامات جاری کردیے۔ بھارتی ہائی کورٹ آج بابری مسجد رام مندر تنازعے کا فیصلہ آج سنارہی ہے، حکومت کی جانب سے مسجد کی شہادت کے دس روز بعد ایک کمیشن قائم کی گئی جس نے سترہ سال بعد اپنی رپورٹ بھارتی وزیراعظم کو پیش کی ، بھارتی اخبار کے مطابق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسجد کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہید کیا گیا۔جس میں انتہاپسند ہندوتنظیم آرایس ایس، سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سمیت دیگر افراد شامل تھے۔چھ دسمبر انیس سو بانوے کو ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کو شہید کرنے کے دس روز بعد ایک انکوائری کمیشن قائم کی گئی، جس کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ لبراہان کررہے تھے۔کمیشن کو تین ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی مگر کمیشن کی درخواست پر اڑتالیس مرتبہ اس کی معیاد کی مدت میں توسیع کی گئی۔ کیمشن کی انکوائری کے دوران بی جے پی کے سینیر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اس وقت کے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ سمیت دیگر افراد بھی ریٹائرڈ جسٹس ایم ایس لیبرہان کے سامنے پیش ہوئے۔کمیشن میں متعدد مرتبہ توسیع دیے جانے کے باعث لیبرہان کمیشن کافی عرصے سے تنازعات کا شکار رہی۔اور بالاخر 17 سال بعد جسٹس لیبرہان نے تیس جون 2009 کو رپورٹ بھارتی وزیراعظم کو پیش کردی۔اور رپورٹ نومبر 2009 میں بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔انڈین ایکسپریس اخبار نے اس رپورٹ کے بعض اقتسبات شائع کیے تھے، اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بندی اور بہت سوچ سمجھ کرکیاگیا، جس کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں بھی کی گئیں۔۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مسجد گرائی جارہی تھی تو وہاں اس کے لیے آلات اور ساز وسامان موجود تھا،اخباری رپورٹ کے مطابق مسجدکو مسمار کرنے میں ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اٹل بہاری واجپئی، ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت دیگر اس سازش میں شامل تھے۔
بابری مسجد تنازع کا تاریخی پس منظر
Posted on Feb 25, 2011
سماجی رابطہ