ہم سب جانتے ہیں کہ ایک مسافر طیارے کو پائلٹ اڑاتے ہیں لیکن سائنس کی تیزی سے ہونے والی ترقی کی بدولت جلد ہی وہ وقت بھی آنے والا ہے جب مسافر طیارے بھی بغیر پائلٹ کے اڑے گے۔
آج جب آپ جہاز پر سوار ہوتے ہیں تو آپ کے کانوں میں ایک آواز سنائی دیتی ہے جو آپ کو طیارے کے رُوٹ، وقت اور موسم کی معلومات دیتی ہے۔ یہ آواز طیارے کے پائلٹ کی ہوتی ہے۔
لیکن اب یہ آواز ماضی کا قصہ بن جائے گی کیونکہ ممکن ہے کہ نئی نسل روبوٹ سے اڑنے والے طیاروں میں سفر کرے۔ نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کے بغیر پائلٹ ائیركرافٹ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاگ ڈیوس کہتے ہیں، ’ہمارا یقین ہے کہ طیارے کی صنعت میں بنا پائلٹ کے ہوائی جہاز بڑی تبدیلی ہو گا۔‘
تاہم بغیر پائلٹ کے طیارے فوج کے لیے نئی بات نہیں ہیں۔ کئی برسوں سے لینڈنگ کے خود کار نظام کی مدد سے ایف -18 کرافٹ اتارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پائلٹ کے بغیر ڈرون لڑاکا طیارے متعارف کروائے گئے۔
ان طیاروں کو دور بیٹھے پائلٹ ریموٹ سے چلاتے ہیں لیکن ان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ایئر کرافٹ ایک خاص ہوائی راستہ کی پیروی کرتے ہیں اور مسئلہ پیدا ہونے پر خود نیچے اتر سکتے ہیں۔
امریکی بحریہ کا ایکس -47 بی کرافٹ تکنیکی طور پر اور بھی جدید ہوگا۔ اس میں پائلٹ کی مداخلت کم سے کم رہ جائے گا۔
پوری بیسویں صدی میں مسلسل کوشش ہوتی رہی کہ ہوا بازی کی ٹیکنالوجی کو کس طرح مزید جدت دی جائے۔ اس کے لئے الیکٹرانکس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا گیا اور کوشش یہ کی گئی کہ پائلٹ کا کردار کم سے کم رہ جائے۔
آج کل کے بعض جدید طیاروں میں تو پائلٹ طیارے کو صرف رن وے تک لے جاتے ہیں اور اس کے بعد اڑان بھرنے سے لے کر جہاز کو محفوظ اتارنے کی مکمل عمل تقریباً خود کار ہی ہوتا ہے۔
سابق پائلٹ مسسی كمگس جو اب میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کہتی ہیں،’یہ سب ٹیکنالوجی کا کمال ہے‘۔
وہ فلائی بائی وائر ٹیکنالوجی کے بارے میں بتاتی ہیں جس نے پائلٹ اور جہاز کے انجن کے درمیان رابطے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے اب طیارے کے کنٹرول کا کام پوری طرح کمپیوٹر سے کنٹرول ہو گیا ہے۔
پائلٹ بغیر مسافر طیارے کے استعمال کو اور آگے لے جانے کے مقصد سے ٹیکنالوجی کے میدان کی کمپنی بییی سسٹمز نے حال ہی میں برطانیہ کے آسمان میں ایک پائلٹ کے بغیر طیارہ اڑایا۔ اس طیارے پر مسافر سوار تھے اور انتظامات کے مطابق ہنگامی صورتحال پیدا ہونے پر ایک پائلٹ طیارے کا کنٹرول سنبھال لیتا۔ تاہم اس کی ضرورت نہیں پڑی اور تجربہ کامیاب رہا۔
بغیر پائلٹ کے تجرباتی پرواز کرنا ایک بات ہے، لیکن 350 مسافروں سے بھرے ایک جہاز کو بغیر پائلٹ کے بحر اوقیانوس کے اوپر بھیج دینا فی الحال ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
ایک وقت تھا جب مسافر طیاروں میں پانچ پائلٹ ہوا کرتے تھے۔ اب یہ تعداد گھٹ کر دو رہ گئی ہے لیکن جس طرح سے ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے، جلد ہی کاکپٹ میں ایک پائلٹ رہ جائے گا اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب فوجی اور سائنسی کرافٹ کی طرح مسافر طیارے بھی دور سے کنٹرول کیے جا سکیں گے۔
تکنیکی ترقی کا آخری پڑاؤ ہے انسانی کنٹرول کو پوری طرح ختم کر دینا، اس کے لئے ضروری ہے کہ طیارہ اپنے فیصلے لے سکے۔
ڈاگ ڈیوس کہتے ہیں، ’اس کے لئے ضروری ہے کہ جہاز کو ہوا میں اپنی پوزیشن، منزل اور موسم کی معلومات ہو۔ اس کے ساتھ ہی طیارے میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کہ وہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دیکھ سکے اور اس سے بچنے کے اقدامات ڈھونڈھ سکے۔‘
آج یہ کام پائلٹ کرتے ہیں جو ریڈار پر نظر رکھ کر اور کھڑکی سے باہر دیکھ کر فیصلے لیتے ہیں لیکن مشین یہ سب دیکھ پائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ویڈیو کیمرے، سینسر اور طاقتور کمپیوٹر فیصلے لینے میں حقیقی وقت میں اس کی مدد کریں۔
جس طرح سے ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے وہ دن دور نہیں جب طیارے بغیر پائلٹ کے اڑ سکیں گے لیکن ایک مسئلہ پھر بھی رہے گا۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا۔ عام لوگ اس بات پر کس طرح آسانی سے یقین کر لیں گے کہ بغیر پائلٹ کے طیارہ محفوظ ہو سکتا ہے۔
پروفیسر مسسی كمگس کہتی ہیں کہ اعداد و شمار پائلٹ کے بغیر طیارے کے حق میں ہیں۔
"تین سال پہلے یو اے وی یعنی انمینڈ ایریل وہییكل عام طیارے سے زیادہ محفوظ ہو گئے۔‘
تاہم ان اعداد و شمار کے بل پر فی الحال لوگوں کو سمجھایا نہیں جا سکتا کہ وہ بغیر پائلٹ والے طیارے پر سوار ہو سکتے ہیں۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے پروفیسر مسسی كمگس کہتی ہیں، ’لوگ جہاز میں پائلٹ کی موجودگی اس لئے چاہتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ طیارے کے ساتھ جو کچھ ہو گا اس ذمہ دار وہ بھی ہوں گے۔ اس لیے اگر کوئی جہاز ڈانواڈول ہوتا تو مسافروں کو یہ تسلی رہتی ہے کہ طیارے کی سب سے آگے کی سیٹ پر ایک شخص ایسا ہے جو ان کی زندگی بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
بغیر پائلٹ مسافر طیارے بہت جلد
Posted on May 13, 2013
سماجی رابطہ