انٹرنیٹ کی مقبول کمپنی گوگل کے مشترکہ بانی سرجی برن کا کہنا ہے کہ ڈرائیور کے بغیر چلنے والی خود کارگاڑی زیادہ محفوظ ہو گی۔
لیکن ان گاڑیوں کو چلانے کے حق میں اور ایسی گاڑیوں کے ساتھ سڑک پر اپنی گاڑی خود چلانے کے لیے کتنے لوگ تیار ہوں گے؟
دو ہزار چالیس میں گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو لائسنس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ کم سے کم ادارہ برائے الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونک انجینیئرز کا ماننا ضرور ہے۔
اس ادارے کا خیال ہے کہ عنقریب خود کار گاڑیاں کسی بھی مقام تک سفر کرنے کے قابل ہوں گی۔
دورِ حاضر میں ہونے والے نوّے فیصد حادثات انسانی غلطی کے باعث ہوتے ہیں۔ کئی کار کمپنیوں کا خیال ہے کہ لوگوں کو اس معاملےسے نکالنا تحفظ میں اضافے کا سبب ہو گا۔
لیکن کئی ماہر ڈرائیور یہ نہیں سوچتے ہیں کہ وہ خود بھی حادثات کی وجہ ہو سکتے ہیں۔
ڈرائیوروں کی نفسیات کے بارے میں مطالعہ کرنے والے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر گراہم ہول کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے ڈرائیور ہیں۔ جہاں تک ڈرائیونگ کا معاملہ ہے لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کے مقابل زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔‘
بڑی تعداد میں کمپنیاں خود کار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
جنرل موٹرز، وولکس ویگن، گوگل، وولوو، بی ایم ڈبلیو، آڈی، مرسیڈیز اور کئی دوسری کمپنیاں خودکار گاڑیوں کے لیے ماضی کی نسبت بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بہتر ڈرائیور کون ہے آدمی یا مشین؟
سال دو ہزار دس کے دوران امریکہ میں بتیس ہزار آٹھ سو پچاسی افراد گاڑیوں کے تصادم میں ہلاک ہوئے اور پچھلے بیس برسوں میں یہ کم ترین تعداد ہے۔
امریکی نیشنل ہائی وے سیفٹی اٹھارتی کے مطابق اس تعداد کا مطلب ہے کہ امریکہ کی سڑکوں پر ہر ایک کروڑ میل کے سفر میں حادثے کا شکار ہونے والوں کی شرح ایک اعشاریہ گیارہ فیصد ہے۔
خود کار گاڑیوں کے نسبتاً محفوظ ہونے کی دلیل دیتے ہوئے سٹینفورڈ لاء سکول کے برائنٹ واکر سمتھ سمجھتے ہیں کہ گوگل کی خودکار گاڑی کا تین کروڑ میل کا سفر بنا کسی جان لیوا حادثے کے ہوگا۔
برائنٹ واکر سمتھ کے مطابق اگر یہ اعداو شمار سچ ثابت بھی ہوتے ہیں، ہمیں کنٹرول کمپیوٹر کے حوالے کرنے سے پہلے قائل کرنا ہو گا۔
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ لوگ ان چیزوں سےخوف محسوس کرتے ہیں جو براہ راست ان کے کنٹرول میں نہ ہوں اور ان میں ہوا بازی، جوہری توانائی اور یہاں تک کہ خوراک کو محفوظ کرنا شامل ہے۔
ڈرائیوروں کے بارے میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ خور کار گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا احساس کیسا ہوگا۔
بعض ماہر نفسیات کو اس بات کی فکر ہے کہ کمپیوٹر سے چلنے والی گاڑیوں کتنی محفوظ ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ہال کا کہنا ہے ’حقیقت یہ ہے کہ ڈرائیونگ ایک پیچیدہ کام ہے اور ڈرائیونگ کے وقت بہت سارے فوری فیصلے کیے جاتے ہیں جس سے حادثات سے بچا جاسکے۔‘
کمپیوٹر سے چلنے والی گاڑیوں کے حادثے کے لیے ایک نیا جملہ ’کمپیوٹر کریش‘ بنایا گیا ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے خودکار گاڑیاں چلنے لگیں گی لوگ اس تجربے کو سمجھ لے گیں اور اس کے عادی ہو جائیں گے۔
بہتر ڈرائیور کون ہے آدمی یا مشین
Posted on Oct 04, 2012
سماجی رابطہ