سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہنسی سے جسم میں ایسے کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں جو قدرتی طور پر درد ختم کرنے والی دوا کا کام کرتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق قدیم دور کے انسانوں میں زور سے ہنسی یا قہقہے لگانے کی صلاحیت کم تھی۔
یہ تحقیق رائل سوسائٹی بی میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق میں پہلے چند رضا کاروں میں درد کی نوعیت معلوم کی گئی پھر انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔
رضا کاروں کے ایک گروپ کو پندرہ منٹ کی ایک مزاحیہ فلم دکھائی گئی جبکہ دوسرے گروپ کو گالف کے متعلق ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔
محققین نے دیکھا کہ مزاحیہ فلم دیکھنے والے افراد میں درد کو برداشت کرنے کی صلاحیت دس فیصد بڑھ گئی جبکہ بورنگ فلم دیکھنے والے افراد میں درد برادشت کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی۔
محققین کے مطابق ہنسی کی قسم بھی بہت اہم ہے۔ دبی ہوئی اور محض کھلکھلانے والی ہنسی انسانوں پر کوئی نفسیاتی اثر نہیں ڈالتی، صرف قہقہے یہ کام کر سکتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رابن دنبر کو جن کی سربراہی میں یہ تحقیق کی گئی ہے کو یقین ہے کہ بے تحاشہ قہقے لگانے کے دوران انسانی جسم سے اینڈورفنز نامی کیمیکل پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف ہلکی ہلکی خوشی کا باعث بنتا ہے بلکہ اس سے درد کی شدت بھی کم ہو جاتی ہے۔
پروفیسر رابن دنبر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ تمام مزاحیہ پروگرامز سے ایسا نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی کےپروفیسر کا کہنا ہے کہ محققین اینڈورفنز نامی کیمیکلز کی مقدار کو ناپ نہیں سکے کیونکہ ایسا کرنے کے لیے انہیں رضاکاروں کی ریڑھ کی ہڈیوں سے لمبی سوئی کی مدد سے مواد نکالنا پڑتا جس کی وجہ سے ان رضاکاروں کے چہروں سے ہنسی غائب ہو جاتی اور اس سے تحقیق کے نتائج متاثر ہو سکتے تھے۔لہٰذا محققین ہر رضاکار کے درد کو ممکن طریقے سے جتنا جانچ سکتے تھے جانچ لیا۔
ہنسی: درد میں کمی کی بہترین دوا
Posted on Sep 15, 2011
سماجی رابطہ