امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف’غیر امریکی افراد‘ ہیں۔
جمعرات کو رات گئے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر کلپیر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ’ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی اخبار گارڈین میں ’پرزم پروگرام‘ کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں میں کئی خامیاں ہیں‘ تاہم اس بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔
انہوں بیان میں مزید کہا ہے کہ بات چیت کی معلومات حاصل کرنے کے پروگرام’ کو بنانے کا مقصد بیرون ملک سے انٹیلیجنس معلومات حاصل کرنا ہے اور اس کا تعلق امریکہ سے باہر مقیم افراد سے ہے‘۔
جیمز کلیپر کے بیان کے بقول’ امریکی شہریوں، دیگر امریکی افراد اور امریکہ میں مقیم کسی بھی فرد کے خلاف جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا جائے گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پرگرام بیرون ملکی نگرانی کے ایکٹ کے سیکشن 702 کے تحت کام کرتا ہے اور اس کی حال ہی میں کانگریس میں بحث کے بعد اجازت دی گئی تھی۔
’اس پروگرام کے تحت کے جو معلومات حاصل کر جاتی ہیں، وہ بیرونی ملک سے حاصل کرنے والی خفیہ معلومات میں انتہائی اہم اور قیمتی ہوتی ہیں‘۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔
اخبار کے مطابق یہ سب کچھ امریکی حکومت کے ایک خفیہ پروگرام کے تحت کیا جارہا ہے جسے پرزم کا نام دیا گیا ہے اور اسکے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔
اس سے پہلے برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ایک خفیہ عدالتی حکم کے تحت امریکی کی سب سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ویریزون سے روزانہ لاکھوں صارفین کے ٹیلیفون ریکارڈ حاصل کرتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کو ’حیرت انگیز‘ قرار دیا ہے۔
امریکہ کے آئینی حقوق کے سینٹر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی عدالت کی جانب سے لوگوں کی نگرانی کا سب سے وسیع حکم ہے۔
صدر بش کے دور میں منظور کیے جانے والے قانون پیٹریوٹ ایکٹ کے تحت جاری اس عدالتی حکم پر جج راجر ونسن کے دستخط ہیں۔
اس عدالتی حکم کے تحت کمپنی پر لازم ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو اس تمام الیکٹرانک ڈیٹا کی تفصیلات مہیا کرے جس میں کس صارف نےکس وقت، کہاں اور کس نمبر پر فون کیا۔
کمپنی پر لازم ہے کہ وہ ٹیلیفون نمبر، کالنگ کارڈ نمبر، انٹرنیشنل سبسکرائبر شناختی نمبر ، انٹرنیشنل موبائل سٹیشن آلات نمبر، اور کال کی تاریخ اور وقت کے بارے میں مکمل معلومات مہیا کرے۔
البتہ اس عدالتی حکم کے تحت ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی اپنے صارف کا نام، پتہ اور اس رابطے کے دوران مواد کے تبادلے کی معلومات دینے کی پابند نہیں ہے۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس عدالتی حکم کے بارے میں کسی کو کوئی معلومات نہ فراہم کی جائے۔
انٹرنیٹ کمپنیوں یاہو، فیس بک اور ایپل نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی نہیں دیتی ہیں۔
گوگل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ’ گوگل حکومت کو کوئی ایسا خفیہ دروازہ مہیا نہیں کرتی جس کے تحت نجی صارفین کی معلومات حاصل کی جا سکیں۔
انٹرنیٹ پر صارفین کی نگرانی کا اعتراف
Posted on Jun 08, 2013
سماجی رابطہ