امریکی ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ صدی کا دمدار ستارہ قرار دیے جانے والے ستارے آئسن کا کچھ حصہ سورچ کی تپش برداشت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس سے قبل یورپی ماہرین نے کہا تھا کہ برف اور دھول پر مشتمل یہ ستارہ سورج کا سامنا نہ کر سکا اور اس کا بیشتر حصہ اس کی گرمی اور کشش ثقل کی وجہ سے تباہ ہوگیا ہے۔ یہ ستارہ جمعرات کی شام سورج سے بارہ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا تھا اور ماہرین نے دیکھا تھا کہ سورج کا سامنا ہوتے ہی دم دار ستارے کی برف اور دھول سورج کے پیچھے غائب ہوگئی تھی اور بعد میں صرف ایک دھندلا سا عکس دوبارہ نمودار ہوا تھا۔ تاہم امریکی بحریہ کے ماہرین طبعی فلکیات کا کہنا ہے کہ دمدار ستارے کے منظر سے غائب ہونے کے دو گھنٹے بعد کوئی چیز دوبارہ ابھری ہے اور اس کی دم ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں ہمارے آسمان کو روشن کر سکتی ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی میں سورج کا نظارہ کرنے والے سیٹلائٹ سوہو کے ماہرین نے اس دمدار ستارے کی موت کی خبر گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق جمعرات کو رات ساڑھے نو بجے دی تھی۔'ایسا' کے ٹوئٹر فیڈ میں کہا گیا ہے کہ 'ہمارے سوہو کے سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ آئسن جا چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اپنی بڑی جسامت کے باوجود آئسن سورج کی حدت اور تاب و تب کو برداشت نہ کر سکا اور سورج کے اس قدر قریب ہونے کے سب اس کی گرمی اور توانائی کی لہر میں پگھل گیا۔ فلکیات کے ماہرین کی دلچسپی اس دم دار ستارے میں اس وقت سے قائم تھی جب پہلی بار وٹالی نیوسکی اور آرٹیوم نووی چونوک نے سنہ 2012 میں اس دم دار ستارے کی نشاندہی کی تھی۔سائنس دانوں کا خیال تھا کہ 'تازہ' دو کلومیٹر چوڑا مادہ نظام شمسی کے اندرونی حصے میں دور دراز سیارے نیپچون کے بھی آگے سے آیا لیکن جوں جوں یہ سورج کے قریب تر ہوتا گیا اس کی برف پگھلتی گئی۔بہرحال شروع سے ہی یہ نظر آ رہا تھا کہ آئسن کا نظارہ بہت شاندار نہ ہو گا کیونکہ وہ اس طرح نہیں چمک رہا تھا جیسا کہ ماہر فلکیات امید کر رہے تھے۔
آئسن سورج کی تپش برداشت کرنے میں کامیاب
Posted on Nov 30, 2013
سماجی رابطہ