برصغیر میں ننھے بچوں کو لوریاں سنانے کی روایت بہت پرانی ہے لیکن جب دنیا میں لوری کی تاریخ کو کھنگالا گیا تو پتہ چلا کہ اس کا آغاز تقریباً چار ہزار سال قبل عراق میں بابل کی تہذیب میں ہوا تھا۔
ماہرین کے مطابق دنیا میں پہلی بار لوری بچوں کو سلانے کے لیے ہی گائی گئی تھی اور دو ہزار قبل مسیح میں یہ لوری مٹی کے ایک چھوٹے ٹکڑے پر تحریر کی گئی تھی جو کھدائی کے دوران ملا ہے۔
اس ٹکڑے کو لندن کے برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ ہتھیلی میں سما جانے والے مٹی کے اس ٹکڑے پر موجود تحریر ’كیونیفارم سکرپٹ‘ میں ہے جسے لکھائی کی ابتدائی اشکال میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
اس لوری کو جہاں تک پڑھا جا سکا ہے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ، ’جب ایک بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے۔‘
یعنی اس تحریر سے واضح ہے کہ آج جہاں لوریاں بچوں کے لیے محبت اور ان کی پرسکون نیند سے جڑی ہیں وہیں دنیا کی پہلی لوری میں محبت سے زیادہ خوف کا عنصر تھا۔ قدیم موسیقی کے ماہر رچرڈ ڈبرل کہتے ہیں کہ ’اس دور کی لوریاں خوف اور ڈر کا نمونہ تھیں۔‘
ایک لوری کا ذکر کرتے ہوئے موسیقار ذوی پامر نے بتایا کہ ’وہ لوگ بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ بہت شور کر چکے ہو اور اس شور سے بری روحیں جاگ گئی ہیں اور اگر وہ ابھی فوری طور پر نہیں سوئے تو یہ روحیں انہیں کھا جائیں گی۔‘
مغربی کینیا کے قبائل میں ایک لوری کافی استعمال ہوتی ہے جس میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ جو بچہ نہیں سوئےگا، اسے لگڑبھگا کھا جائے گا۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں مائیں جو ’راک اے بائے بےبی‘ نامی لوری اکثر گنگناتی ہیں اس میں بھی خوف کے کچھ الفاظ ملتے ہیں۔
اس لوری میں بہت ہی خوبصورت اور ہلکے پھلكے طریقے سے بچے کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پچوں کی ترقی پر کئی کتابوں کے مصنف گوڈارڈ بلیتھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کئی ایسی لوریاں ہیں جن کا لفظی مطلب نہیں نکالا جا سکتا۔ ’زیادہ تر لوریوں میں محبت اور تحفظ کی باتیں ہی ہوتی ہیں جبکہ کئی لوریوں میں ملک کی تاریخ کو دہرایا جاتا ہے۔‘
ذوئی پامر جو ایک موسیقار ہیں رائل لندن ہسپتال میں لوریوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہسپتال میں ماؤں کو لوریاں سکھا رہے ہیں جن میں کئی تو نئی ہیں لیکن کئی بہت پرانی ہیں۔
ان ماؤں کا تعلق چین، بنگلہ دیش، بھارت، اٹلی، سپین، فرانس اور مشرقی یورپ سے ہے لیکن پامر کے مطابق ان ممالک کے معاشروں میں تنوع کے باوجود ان کی لوریوں کی مماثلت پائی جاتی ہے۔
ذوئی کا کہنا ہے کہ’دنیا میں آپ جہاں چلے جائیں مائیں ایک ہی دھن استعمال کرتی ہیں اور ایک ہی طریقے سے اپنے بچوں کے لیے گاتی ہیں۔ بہت سی لوریاں چند ہی الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر حمل کے چوبیسویں ہفتے میں ہی بچہ ماں کی آواز سننے لگتا ہے۔ روس میں ماہرِ اطفان مائیکل لیزاریو کہتے ہیں، ’ماں کی آواز پُل کی طرح ہوتی ہے جو بچہ دانی میں پل رہے بچے کو باہر کی دنیا سے جوڑتا ہے۔‘
مائیکل کہتے ہیں، بچہ دانی میں پل رہا بچہ باہر کی آوازیں سن سکتا ہے لیکن اتنی صاف نہیں جتنا کہ وہ ماں کی آواز سنتا ہے کیونکہ اسے بچہ باہر اور اندر دونوں طرح سے سن سکتا ہے۔‘
گوڈارڈ بلیتھ کا کہنا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان بات چیت اور لوریوں کی پرانی تاریخ ہے اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچوں میں تال اور لے کو سمجھنے کی انوکھی صلاحیت ہوتی ہے۔
بلیتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ماں اگر لوری نہیں بھی گا رہی ہوتی ہیں تو بچے سے اپنے انداز میں بات کرتی ہے، دھیمے دھیمے لہجے میں پیار سے بولتی ہیں جو بچوں کے لیے سمجھنا آسان ہوتا ہے اور بچہ اس آواز پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
بلیتھ کے مطابق آج بھی لوری اپنا سفر کر رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے زیادہ تر حصوں میں بچوں کو جو لوریا سنائی جاتی ہیں ان میں چاند یا چندا ماما کا ذکر ہوتا ہے اور ’چندا ماما دور کے‘ ایک مقبول لوری ہے۔
کینیا میں مائیں لوریوں میں اکثر لگڑبگھے کا ذکر کرتی ہیں تاکہ بچہ ڈر سے سو جائے۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ کینیا کے دیہی علاقوں کے جنگلوں میں لگڑبگگھے پائے جاتے ہیں۔
سویڈن میں کچھ لوریوں میں بچوں کو زبان سکھانے کی کوشش ہوتی ہے تو کچھ لوریاں معلومات دینے کے لیے ہیں وہیں عراق کی لوریوں میں درد ہوتا ہے۔
ہم یہ تو جان گئے ہیں کہ دنیا میں چار ہزار سال قبل بھی لوری اتنی اہم تھی کہ اسے تحریر کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ آنے والے دور میں کب تک یہ اپنی اہمیت برقرار رکھ پاتی ہے۔
لوری کی آفاقی زبان
Posted on Jan 23, 2013
سماجی رابطہ