’چکنی مٹی، انسان کے ہاتھوں میں مٹکے سے لے کر گلدان تک ہر طرح کی شکل اختیار کر لیتی ہے،‘ یہ کہتے کہتے کراچی کے علاقے لیاری میں کمہار واڑا سے تعلق رکھنے والے کمہار عبدالغنی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو مٹی سے بنی بندوق کی گولی بنا کر دکھا دی اور کہا کہ آجکل بدامنی کا شکار دکھائی دیتے لیاری کے علاقے میں تخلیقی فنکاروں کی کوئی کمی نہیں۔
عبدالغنی نے کہا کہ، ’وہ بچپن سے یہ کام کر رہے ہیں اور انھوں نے اور ان کے تین بھائیوں نے یہ کام اپنے والد سے سیکھا۔‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ ورثہ اپنی اگلی نسل تک منتقل نہیں کر رہے کیونکہ بقول ان کے اول تو پاکستان میں اس کام کی قدر نہیں اور سرکاری سرپرستی بھی نہیں جبکہ ان کا مال جو یہاں کوڑیوں کے داموں خریدا جاتا ہے وہ بیرون ملک ڈالروں میں بکتا ہے، دوسرا یہ کہ لیاری کے حالات نے ان کے کام کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔
کراچی کے پوش علاقے کلفٹن کے ایک شاپنگ مال میں عبدالغنی ایک چھوٹا سا اسٹال لگاتے ہیں اور وہاں اس فن میں دلچسپی رکھنے والے بچوں اور بڑوں کے ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھوں سے مٹی کی مختلف چیزیں بنواتے ہیں اور معاوضے کے طور پر وہ ان سے ایک سو پچاس روپے وصول کرتے ہیں جس میں سے کچھ فیصد شاپنگ مال لے لیتا ہے اور وہ یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کاش کراچی اور خاص طور پر لیاری کے حالات اچھے ہوتے اور وہاں کمہار واڑا جو کہ کمہاروں کا مرکز ہے وہاں ان کا کام زور و شور سے چلتا اور دور دور سے لوگ وہاں ان کے فن پارے خریدنے آتے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالغنی کے اسٹال پر اپنے ہاتھوں سے بنائے ایک گلدان میں رنگ بھرتی ایک بچی کی ماں کا کہنا تھا کہ بچوں کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ اس طرح کی فنکارانہ سرگرمیاں لازمی ہیں۔
عبد الغنی کا کہنا تھا کہ ان کے بنائے ہوئے بلوچی چلم ایران برآمد کئے جاتے ہیں اور عربی چلم دبئی اور وہ کراچی کے بڑے بڑے اسکولوں میں اور بچوں کی سالگراہوں میں جا کر بچوں کو یہ فن سکھاتے ہیں لیکن ان کے اپنے بچے اس فن میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اب اس کام سے ان کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔
مٹی کے فن پارے تخلیق کرنے والا ایک فنکار
Posted on Nov 01, 2013
سماجی رابطہ