شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن 1927 میں راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولھویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔
1947 میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ نقلِ وطن کر کے پاکستان آ گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔
کسبِ کمالِ کُن کہ عزیزِ جہاں شوی
اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر مکینک اور اسکے بعد ٹریکٹر کے مکینک بن گئے، لیکن رہینِ ستم ہائے روزگار رہنے کے باوجود وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ہر حال میں اپنا ریاض جاری رکھا۔
سن پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ جوہر شناس نے موتی کی صحیح پہچان کی تھی چنانچہ دھرپد، خیال، ٹھُمری اور دادرے کی تنگنائے سے نکل کر یہ جوہرِ قابل غزل کی پُرفضا وادی میں آنکلا جہاں اسکی صلاحیتوں کو جِلا ملی اور سن ساٹھ کی دہائی میں اسکی گائی ہوئی فیص احمد فیض کی غزل ’گلوں میں رنگ بھرے‘ ہر گلی کوچے میں گونجنے لگی۔
فلمی موسیقار جو ان کے فن کو ریڈیو کی گائیکی کہہ کر دامن چھڑاتے رہے تھے، اب جمگھٹا بنا کر اسکے گرد جمع ہوگئے چنانچہ سن ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن گئے اور سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لیکر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔
سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ کیا۔ بھارت میں اُن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا منگیشکر کے اس خراجِ تحسین سے ظاہر ہوا کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے ہیں۔ نیپال کے شاہ بریندرا اُن کے احترام میں اُٹھ کے کھڑے ہوجاتے تھے اور فخر سے بتاتے تھے کہ انھیں مہدی حسن کی کئی غزلیں زبانی یاد ہیں۔
پاکستان کے صدر ایوب، صدر ضیاءالحق اور صدر پرویز مشرف بھی اُن کے مداح تھے اور انھیں اعلیٰ ترین سِول اعزازات سے نواز چُکے تھے، لیکن مہدی حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ بےپناہ مقبولیت اور محبت تھی جو انھیں عوام کے دربار سے ملی۔ پاک و ہند سے باہر بھی جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آباد ہیں، مہدی حسن کی پذیرائی ہوتی رہی اور سن اسّی کی دہائی میں انھوں نے اپنا بیشتر وقت یورپ اور امریکہ کے دوروں میں گزارا۔
مہدی حسن کثیرالاولاد آدمی تھے۔ اُن کے چودہ بچّے ہیں، نو بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔ اپنے بیٹوں آصف اور کامران کے علاوہ انھوں نے پوتوں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور آخری عمر میں انھوں نے پردادا بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا اور اپنے پڑپوتوں کے سر پہ بھی دستِ شفقت رکھا۔
اُن کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اُن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کا کہنا تھا کہ ایسی آواز صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہے، حالانکہ یہ بات خود مادام کی شخصیت پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے۔ آج مداّح اور ممدوح دونوں ہی اس دنیا میں نہیں لیکن موت نے صرف اُن کا جسدِ خاکی ہم سے چھینا ہے۔ اُن کی لازوال آواز ہمیشہ زندہ رہے گی۔
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
Posted on Jun 14, 2012
سماجی رابطہ