سائنس دانوں نے اس بات کا پتہ چلایا ہے کہ کس طرح دنیا کا سب سے چھوٹا مینڈک اپنے کان کے بجائے اپنے منہ سے سنتا ہے۔
پہلے سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ بغیر کانوں والا دنیا کا یہ مختصر ترین مینڈک گارڈینر بہرا ہے۔
لیکن پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی سائنس میں شائع ایک تحقیق نے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ وہ اپنے منہ کے کھلے حصے کو سننے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اسی راستے آواز کی لہر اس کے دماغ تک پہنچتی ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس دریافت نے اس پہیلی کو حل کر دیا ہے کہ آخر بغیر کان والے مینڈک اس قدر زوردار آواز کیوں نکالتے ہیں۔
بحر ہند کے سیچیلس جزائر میں پایا جانے والے ان ننھے مینڈکوں میں کان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس گونجتا ایئرڈرم نہیں ہوتا ہے۔
اس لیے محققوں کا خیال تھا کہ اس جاندار کو اپنی آواز کی لہروں کو تیز کرنے یا اندر لے جانے کا کوئی وسیلہ نہیں ہے۔
لیکن اس تحقیق نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
سائنسدانوں نے مینڈک کی آواز کو ریکارڈ کرکے ان کو ان مینڈکوں کے سنایا تاکہ اس کے تئیں ان کے برتاؤ یا رد عمل کا مشاہدہ کیا جا سکے۔
سیچیلس کے نیچر پروٹکشن ٹرسٹ کے جسٹن گرلیچ جو کہ اس تحقیق کرنے والی ٹیم کے رکن بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ان مینڈکوں کی آواز یہاں کے جنگلوں کی خصوصیت ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت تیز اور اونچی آواز میں نکالی گئی چیخ ہے۔‘
جب انھوں نے ان چیخوں کو بجایا تو انھوں نے پایا کہ یہ مینڈک ان کو سنت ہیں۔
وضاحت کرتے ہوئے گرلیچ نے کہا: ’اگر آپ ان آوازوں کو بجائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ ان کا جواب دیتے ہیں۔ جواب میں یا تو وہ اپنی جگہ بدل دیتے ہیں یا پھر اس جانب رخ کر لیتے ہیں جدھر سے آواز آئی تھی یا پھر عام طور پر وہ اس کے جواب میں آواز نکالتے ہیں۔‘
اس تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ اور سائنسی تحقیق کے فرانسیسی قومی مرکز کے ریناڈ بواسیل نے کہا: ’دراصل یہ بہت عجیب و غریب اور مزاحیہ بات ہے کہ (یہ مینڈک) بعض اوقات لاؤڈسپیکر پر حملہ کر دیتے ہیں۔‘
اس جانچ کے بعد دوسرا مرحلہ یہ دریافت کرنے کا تھا کہ آخر یہ مینڈک سنتے کیسے ہیں۔ اسے جاننے کے لیے ٹیم نے انتہائی حساس قسم کے ایکسرے امیجنگ تکنیک کا استعمال کیا۔
اس سے انھوں نے مینڈک کی جزیات کا تفصیلی مطالعہ کیا اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کی کہ آخر جسم کا وہ کون سا حصہ ہے جو وسطی کان کا کردار نبھا سکتا ہے کہ وہ آواز کی لہروں کے سگنل کو دماغ تک پہنچائے۔
مینڈکوں کی ریکارڈ کردہ آواز کو بجا کر دیکھا گیا کہ آخر ان کے جسم کا کون سا عضو اس پر حرکت میں آتا ہے تو یہ پایا گیا کہ ان مینڈک کے منہ کی خالی جگہ کسی گیٹار کی طرح گونجنے لگتی ہے اور آواز کو بڑھا کر دماغ تک پہنچاتی ہے۔
ڈاکٹر بواسیل نےکہا کہ اس دریافت سے انسانی بہرے پن کی مخصوص قسم کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مختصر ترین مینڈک منہ سے سنتے ہیں
Posted on Sep 03, 2013
سماجی رابطہ