غاروں کا تصور آتے ہوئے آپ کا ذہن شاید جراثیم یا جراثیم کش ادویات کی طرف نہیں جاتا ہو گا۔ لیکن ممکن ہے کہ غاروں کی سنسان اور گھٹی ہوئی فضا سے شاید ہمیں اینٹی بیاٹک کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیکٹیریا کا توڑ کرنے میں مدد ملے۔
اینٹی بائیوٹکس بیکٹریا کو کیسے ہلاک کرتی ہیں؟ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے اینٹی بیاٹک ایک کیمیائی چابی ہے جو بیکٹریا کے جسم میں موجود تالے میں فٹ ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کیمیائی عمل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو بالآخر بیکٹریا کی موت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کا سالمہ انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ ایڈز اور دوسرے وائرسوں کے خلاف کام کرنے والی ادویات سے کہیں زیادہ پیچیدہ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ادویات کو تجربہ گاہ میں تیار کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ کیمیادان ان کی تلاش کے لیے فطرت سے رجوع کرتے ہیں۔
پچھلے ساٹھ برسوں میں جتنی بھی اینٹی بائیوٹکس مارکیٹ میں آئی ہیں ان میں سے ننانوے فیصد کو فنجائی اور بیکٹیریا جیسے دوسرے خورد بینی جانداروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تاہم یہ ذخیرہ اب خالی ہونے کے قریب ہے، اس لیے سائنس دان زیادہ سے زیادہ انوکھے ماحولوں کی تلاش میں سرگرم ہیں۔
میں نے ایسے ہی غاروں میں سے ہزاروں بیکٹیریا اکٹھے کیے ہیں، جن میں سے ایک ہزار نئی اقسام کے بیکٹیریا ہیں۔
چوں کہ یہ بیکٹیریا انتہائی نادر ہیں اس لیے یہ نئی اینٹی بائیوٹکس کی دریافت میں بھی بے حد مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہم نے ان کا تجزیہ کیا۔
صرف ایک نمونے میں سے اڑتیس اینٹی بیاٹک مرکبات برآمد ہوئے جن میں سے ایک بالکل نئی اینٹی بیاٹک ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
اس دریافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک کُل ایک سو اینٹی بائیوٹکس دریافت ہوئی ہیں۔ جب کہ غار سے حاصل شدہ صرف ایک نمونے میں سے اب تک کل دریافت شدہ اینٹی بائیوٹکس کا ایک تہائی برآمد ہوا۔
غاروں میں رہنے والے بیکٹیریا اینٹی بائیوٹکس سے اتنے مالامال کیوں ہیں؟
اس کا جواب ہے، تنہائی، مکمل تنہائی۔
غار اس طرح کا الگ تھلگ اور دنیا سے کٹا ہوا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں خورد بینی جاندار لاکھوں سال سے سورج کی روشنی اور غذائیت کے بغیر رہتے چلے آئے ہیں۔ ان جانداروں نے مسلسل فاقوں سے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے وہ متنوع ہتھ کنڈے استعمال کرتے ہیں جو سطحِ زمین پر رہنے والے جانداروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔
یہ خورد بینی جاندار باقی دنیا سے دور پھلتے پھولتے اور ارتقائی منازل طے کرتے ہیں۔ چوں کہ یہاں وسائل انتہائی محددو ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے مقابلہ بھی اتنا ہی سخت ہوتا ہے۔
خوردبینی جانداروں کے دانت اور پنجے نہیں ہوتے جن سے وہ دشمنوں کو مار بھگائیں۔البتہ یہ گوشہ گزین دوسرے جانداروں کو ہلاک کرنے کے لیے مختلف قسم کے کیمیائی مادے استعمال کرتے ہیں۔ انہی کیمیائی مادوں سے اینٹی بائیوٹکس بنائی جا سکتی ہیں۔
ہم نے یہ دیکھنے کے لیے چار ہزار میں سے ترانوے بیکٹیریا کا تجزیہ کیا کہ ان پر اینٹی بیاٹک ادویات کا کیا اثر ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ بیکٹیریا انسانی دنیا سے دور ہیں اور ان کا انسانوں کی بنائی ہوئی ادویات سے کبھی واسطہ نہیں پڑا، اس کے باوجود ان کے اندر حیرت انگیز طور پر آج کل استعمال ہونے والی تقریباً تمام اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت موجود تھی۔
نہ صرف یہ جاندار خود درجنوں اینٹی بائیوٹکس پیدا کر سکتے ہیں، بلکہ ان کے اندر درجنوں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت بھی پائی جاتی ہے۔ صرف ایک نمونے کے اندر چودہ مختلف اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت موجود تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ادویات کے خلاف مدافعت بیکٹیریا کی فطرت میں موجود ہے۔ اس لیے ہمیں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں بے حد احتیاط سے کام لینا ہو گا۔
اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ دنیا میں ایسی غیر دریافت شدہ جگہیں موجود ہیں جہاں سے نئی ادویات کی کلید مل سکتی ہے۔
مستقبل کی اینٹی بائیوٹکس غاروں سے آئیں گی
Posted on Sep 13, 2012
سماجی رابطہ