’پنجاب کا صوفی ورثہ‘ میں اکرم شیخ نے بابا فرید، شاہ حسین، سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث شاہ اور میاں محمد بخش کا منتخب کلام اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ صوفی ورثہ کیوں ضروری ہے۔ کلیلہ و دِمنہ وہ ہندوستانی کلاسیک ہے جس کا ترجمہ دنیا کی چالیس بڑی زبانوں میں تو ہو ہی چکا ہے۔ یہ کتاب بھی اب اردو میں ملتی نہیں تھی۔ ارشد رازی نے اسے نیا بیان دیا ہے۔
نام کتاب: پنجاب کاصوفی ورثہ
انتخاب و ترجمہ: اکرم شیخ
صفحات: 504
قیمت: 760 روپے
ناشر: آصف جاوید، نگارشات، پبلیشرز، 24 مزنگ روڈ، لاہور
عرضِ ناشر میں آصف جاوید نے اس کتاب کو شائع کرنے کا پس منظر بیان کیا کے صوفیا کی وہ سرزمین جس میں سب پیار محبت سے رہتے تھے، ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں پوری عقیدت کے ساتھ شامل ہوتے تھے، آج نفرت اور تعصب کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار ہے۔
ایک اور کام کی بات انھوں نے یہ کی ہے ’ہم نے پنجابی زبان کو جس طرح نظر انداز کیا ہے، وہ بھی ستم ظریفی کی ایک الگ داستان ہے‘۔ آصف نے اچھا یہ کیا ہے کہ اس میں ’ہم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، ورنہ تو اسے کسی اور کی سازش سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے اور ساری تاریخ پر آنکھ بند کر کے جھاڑو پھر دیا جاتا ہے۔
لیکن اکرم شیخ اس بوجھ کو پوری طرح اٹھانے پر تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے ’۔ ۔ ۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس پر توجہ نہیں دی یا اس طرف سے ہماری نظریں مخصوص مقاصد کے تحت ہٹا دی گئیں‘۔ اب اس میں ’ہٹا دی گئیں‘ کے لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اب اس معصومیت کا کیا کیا جائے۔
لیکن اس بات کی تاریخ کو سامنے لانا ہی چاہیے اور اس کے لیے کسی اور کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ میرے ممدوح ناصر عباس نیّر تو اردو کو مابعد نوآبادیات کے تناظر میں دیکھنے میں لگے ہیں، ورنہ انھی سے مدد کی درخواست کرتے، اردو کے حوالے سے تو انھوں نے ریشم کے اِس ڈھیر کے کئی سرے پکڑ بھی لیے ہیں، پنجابی کو بھی کچھ کرنا چاہیے اور ناصر عباس نیّر کا رساتہ تو سب پر کھلا ہے۔ پنجابی کے لیے بھی اور دوسری قومیتی زبانوں کے لیے بھی کہ وہ بھی اپنے اپنے ڈھیر پھرولیں، کم سے کم اپنی حد تک تو کچھ سیدھا کرنے کی کوشش کریں۔ اور دیکھیں کہ شاہ مکھی، گُرمکھی کا بدل کیسے بنی، کون تھے جو اس کام میں لگے اور کس کے کام سے لگے اور صلے میں کیا کیا پایا۔
میں تو کہیں پڑھا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر چیٹرجی تھے، میں ان کی بارے میں تفصیل دھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے کسی بھی سائٹ پر، اس کے وائس چانسلروں کی تفصیل نہیں۔ اب اس یونیورسٹی اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔
ان سر چیٹر جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنانے پر اصرار کیا تھا اور اس پر انہیں خوب رگڑا گیا تھا۔
اس بات کی بھی تفصیلات جمع کی جانی چاہیں، انھیں سامنے لایا جانا چاہیے اور تب کے اور اب کے مخالفت / اختلاف کرنے والوں کے بارے میں جاننا اور بتانا چاہیے۔ اس پر بات کرنی چاہیے کہ پنجابی میں ابتدا سے ہی تدریس کیوں نہ ہو۔ صرف پرائیویٹ سیکٹر ہی میں یہ شرط لگا دی جائے کہ صرف وہ سکول کھلیں اور چلیں گے جو انگریزی کے ساتھ پنجابی بھی پڑھائیں گے۔ صرف پنجاب میں ہی نہیں یہی ہر علاقے اور صوبے میں کیا جانا چاہیے۔
نتائج خود ہی سامنے آ جائیں گے۔ یہ کام صرف مجلسوں، بیٹھکوں اور ’بڑھکوں‘ سے نہیں ہوگا۔
اس کتاب کے حوالے سے اور بھی بہت باتیں پڑھتے ہوے سامنے آئیں گی۔ لیکن چھ بنیادی شاعروں تک رسائی یا شناسائی بھی کوئی چھوٹا کام نہیں۔ ہو سکتا ہے اس کام سے کتنے ہی لوگوں کو ان میں سے کسی کے سارے کام کو پڑھنے کی تحریک ملہ یا سبھی کو پڑھنے کی لگن بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
کتاب میں بڑی حد تک ہر شاعر کا معقول تعارف بھی دیا گیا ہے۔ جو بڑے کام کا ہے۔ مجھ ایسے عام پڑھنے والے کے لیے تو یقینی طور پر کام کا ہے اور یہی اس کا حسن ہے کہ یہ کتاب عام پڑھنے والے کو فراموش نہیں کرتی۔
اردو ترجمے کو نثر میں رکھنا بھی بڑی اہم بات ہے، اتنا کام ہو گیا ہے تو دوسرا بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان شعرا کے کلام سے ایک پنجابی اردو لغت ہی تیار کر لی جائے۔
مجھے تو اب تک کوئی ڈھنگ کی لغت دکھائی نہیں دی۔
یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ پنجابی زبان، ادب اور ثقافت کے لیے جو ادارے ہیں ان کے اغراض و مقاصد میں کیا ہے؟ اگر وہ لغت بھی نہیں بنا سکتے اور زبان کو ویب بیسڈ کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
اب تو پنجاب میں یونیورسٹیوں کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں اور لوگ بھی ہیں۔ کیا انھیں بھی یہ کام ضروری نہیں لگتا؟ اگر نہیں لگتا تو کیا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پنجابی کی حمایت محض زبانی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں۔
مجھے اپنے محترم حسین نقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ پنجابی، پنجابی پڑھنا نہیں چاہتے۔ یہ رائے ان کی ’سجن‘ کی ناکامی کے بعد بنی تھی۔ وہ اس پر قائم ہیں یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں۔
مجھے ’پنجاب کا صوفی ورثہ‘ بہت اچھی لگی ہے۔ میں اس کے ترجمے پر رائے قائم کرنے کی حیثیت میں نہیں ہوں۔ یہ کام کوئی اور کر لے گا جسے پنجابی پر دسترس ہو۔ مجھے تو دونوں زبانوں کا سرسری، واجبی اور کام چلانے لائق علم ہے اور میرے لیے یہ ترجمہ اچھا ہے کہ نثر میں ہے۔
اچھا ہو کہ اس طرح کے کام کے ساتھ آڈیو بھی بنائے جائیں، کیوں کہ اب جو لوگ اس نسل کے بعد آئیں گے وہ لفظوں ہی سے نہیں اس رسم الخط سے بھی ناواقف ہوں گے۔ ان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
یہ کتاب اچھی چھپی ہے، صرف کاروباری نظر سے ہی نہیں دل سے چھاپی گئی لگتی پر ایس کتابوں کو اچھے اور دیرپا کاغذ پر چھپنا چاہیے لیکن منڈی کی مانگ تانگ کو تو آصف ہی زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ کتاب اردو اور اردو جاننے والے ہر گھر میں ہونے چاہیے۔
انگریزی ضرور پاسپورٹ زبان ہے لیکن زادِ راہ میں یہ ورثہ بھی ہو گا تو بچے مڑ کے دیکھنے پر کمتری محسوس نہیں کریں گے۔ کیوں کہ یہ ورثہ، جب جب برتا جائے گا کچھ نہ کچھ دے گا ہی۔
نام کتاب: کلیلہ و دمنہ
انتخاب و ترجمہ: ارشد رازی
صفحات: 208
قیمت: 300 روپے
ناشر: آصف جاوید، نگارشات، پبلیشرز، 24 مزنگ روڈ، لاہور
کئی ہزار سال قبل بید پائے یا وشنو شرما نامی پنڈت نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’پنج تنتر‘ یا پانچ شاستر رکھا گیا۔ کتاب میں بڑے دلکش پیرائے میں سیاست‘ اخلاق‘ دنیا داری اور عدل و انصاف کے اوصاف اور اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک روایت کے مطابق یہ کتاب امر شکتی نامی راجہ کے لیے لکھی گئی تھی۔ لیکن کہانی میں جس راجہ کا ذکر ہے اُسے دابشلیم کا نام دیا گیا ہے اور دابشلیم کہانی میں امورِ مملکت نمٹانے کے لیے اس کتاب میں بتائے گئے اصولوں سے مدد لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اب اگر ’امر‘ اور ’شکتی‘ کو دو الفاظوں کے طور پر لیا جائے تو اس کے معنی لافانی طاقت کے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اس کتاب کو سنسکرت میں در اصل کسی راجہ کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے لکھا گیا ہو اور راجہ کے لیے لکھے جانے کا معاملہ بھی کہانی زیادہ با اثر بنانے کے لیے کہانی کا حصہ بنایا گیا ہو۔
اس کتاب کی خود اپنی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ہے اور یہ بہت سی ایسی باتوں کے اشارے دیتی ہے جو اس کتاب کے بارے میں عام طور سے قائم کیے جانے والے اس خیال سے ہم آہنگ نہیں دکھائی دیتے کہ یہ کتاب کسی ایسے راجہ ہی کے لیے لکھی گئی ہو گی جو اس سے مملکت چلانے میں مدد لیتا تھا۔
اگر یہ کتاب محض راجاؤں یا بادشاہوں کے ہی کام کی ہوتی تو عوام میں اتنی مقبول نہ ہوتی جیسی کہ یہ ہوئی۔ اس کتاب کے بارے میں جو بات کہیں بحث طلب نہیں رہی یہ ہے کہ ’ کلیلہ و دمنہ‘ کی بنیاد ’پنچ تنتر‘ ہے جو سنسکرت میں اور قدیم ہندوستان میں لکھی گئی۔
دوسری بات یہ کہ فارس کہلانے والی قدیم ایرانی سلطلنت کے مشہور بادشاہ نوشیرواں کو اپنے وزیر یا مشیر برزویہ کے ذریعے علم ہوا کہ ہند / ہندوستان کے راجہ کے پاس ایک ایسی کتاب ہے جس میں ایک ایسا منتر ہے جسے مُردے پڑھیں تو جی اٹھیں اور باتیں کرنے لگیں۔
بادشاہ اور کہانیوں کے بادشاہ تو فورًا ہی ایسی باتوں سے تجسس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہر ناممکن کو بھی ممکن کر دکھانے کی فرمائش کرنے لگتے ہیں، اس لیے نوشیروان نے بھی فرمائش کر دی کہ منتر والی کتاب لائی جانی چاہیے۔ تو کون جاتا؟ وہی جس نے خبر سنائی تھی۔
برزویہ ہی کو روانہ کیا گیا۔ جو کہانی کے مطابق مصائب زمانہ سے لڑتا ہوا ہندوستان پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ جس کتاب کی تلاش میں وہ آیا ہے وہ تو حاکم راجہ کی خاص دسترس میں ہے۔ اُسے ورثے میں ملی ہے۔ کسی اور کو نہ تو اس تک رسائی حاصل ہے اور نہ ہی کوئی اُسے حاصل کر سکتا ہے۔
لیکن برزویہ نے اپنی عقل اور ذہانت سے پہلے راجہ تک رسائی حاصل کی اور پھر کتاب تک۔ پھر اس کتاب کے حصے لکھ لکھ کر نوشیروان کو بھیجنے لگا۔ یہ پہلے ہی بتا دیا گیا ہے کہ برزویہ کو زبانوں پر مہارت تھی۔
جب یہ کام ختم ہوا اور برزویہ واپس فارس پہنچا تو نوشیروان گزر چکے تھے اور ان کی جگہ بزرجمہر آ چکے تھے۔ برزویہ نے اپنے بھیجے ہوئے سارے حصوں کو جمع کر کے کتاب کی شکل دی اور اس طرح یہ کتاب فارسی میں آئی۔
بعد ازاں عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے حکم پر ایک عالم عبداللہ بن المقفع نے اسے عربی میں منتقل کیا اور اس کا نام ’کلیلہ ود منہ‘ رکھا۔ کلیلہ اور دمنہ دو گیدڑوں کے نام ہیں۔ جب کہ پنچ تنتر میں یہ نام ’کر تک‘ اور ’دمنک‘ ہیں کہا جاتا ہے کہ فارسی اولین شکل پہلوی میں ’کلیلاگ‘ اور ’دمناگ‘ ہوے تھے۔
موجودہ کلیلہ و دمنہ کے تعارف میں کہا گیا ہے کہ جب عربوں نے ایران فتح کیا تو ابنِ مقفع کی کلیلہ و دمنہ کئی تراجم فارسی میں کیے گئے۔ کیونکہ برزویہ کی کتاب ناپید ہو چکی تھی۔
قصہ در قصہ حکایتوں میں چلنے والی اسی داستان کو مُلاحسین بن علی الواعظ کاشفی نے امیر شیخ احمد سُہیلی کی فرمائش پر پندرھویں صدی میں دوبارہ مرتب کیا اور اسے ’انوارِسُہیلی‘ کا نام دیا۔
ہندوستان میں اکبر بادشاہ کے حکم سے اس قصے کو ابوالفضل نے’عیار دانش‘ کے نام سے تحریر کیا۔ اس کے بعد اس کتاب کے متعدد ترجمے ہوتے رہی جن میں زیادہ شہرت اور مقبولیت شیخ حفیظ الدین کے ترجمے کو حاصل ہوئی جو انہوں ’خرد افروز‘ کے نام سے کیا اور فورٹ ولیم کالج سے 1802 تا 1805 میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ ابوالفضل کے ترجمے سے کیا گیا۔
اب یہ کتاب دنیا کی کم سے کم چالیس کے قریب زبانوں میں موجود ہے اور یہ تمام تراجم کا ماخذ عربی ترجمہ کلیلہ و دمنہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کہ ابتدائی اور آخری حصوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اور ترجمہ کرنے اور مرتب کرنے والوں کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں اور ترمیمیں بھی ہوتی رہی ہیں اور یہ بڑی حد فطری بھی محسوس ہوتا ہے۔
موجودہ کتاب کے لیے، مترجم یا مرتب یا جیسا کہ کہا گیا ہے ’بیان نو‘ کے خالق ارشد رازی نے شیخ حفیظ الدین کے ترجمے ’خرد افروز‘ کو سامنے رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے نامانوس اور متروک الفاظ تراکیب اور محاوروں کی جگہ آج کے محاورے اور الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن لہجے کو ممکن حد تک اصل کے مطابق رکھا ہے۔
یہ کتاب جو کبھی انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کے داؤ پیچ پر مبنی ایک ایسی دستاویز تھی جسے عام لوگوں سے چھپا کر رکھا جاتا تھا اب معاشرے کے مخلتف اور متنوع قسم کے لوگوں کے کرداروں پر دلچسپ اور سبق آموز پیرائے میں بات کرتی ہے۔
بظاہر یہ کتاب خوبصورت ہے لیکن اس پر درکار توجہ نہیں دی گئی۔ قیمت کو بھی مناسب کہا جا سکتا ہے۔
پنجاب کا صوفی ورثہ اور حکایاتِ کلیلہ و دِمنہ
Posted on Jul 30, 2013
سماجی رابطہ