نجی ٹی وی چینل کے شو میں 20 سالہ ہندو لڑکے نے صرف پانچ منٹ میں ایک عالم دین کے سامنے اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں نے رمضان کے مہینے میں نجی ٹی وی چینل پر ایک پاکستانی ہندو نوجوان کے قبول اسلام کو براہ راست نشر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اصل حقائق منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اے آر وائی نامی ٹی وی چینل پر دکھائے جانے والے پرائم ٹائم شو میں 20 سالہ سنیل نامی ہندو لڑکے نے صرف پانچ منٹ میں ایک عالم دین کے سامنے اپنا مذہب تبدیل کر لیا، جس پر اسٹوڈیو میں موجود حاضرین نے مبارک باد دیتے ہوئے اس کے لیے نیا نام تجویز کرنا شروع کر دیا اور بعد میں مجمع محمد عبداللہ پر مفتق ہو گیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد عبداللہ (سینل) نے میڈیا سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہے۔
قومی ہم آہنگی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے چئیرمین ڈاکٹر مہیش کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ اسلام قبول کرنے والے شخص کی مرضی اس میں شامل تھی یا نہیں۔
’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیھچے سے اُس پر کوئی دباؤ ہو اور اُس کو کہا گیا ہو کہ آپ ٹی وی پہ یہ بیان دیں۔ یہ پتا لگانے کی ضرورت ہے کہ اُس کو ٹی وی پہ مدعو کیا گیا ہے اور آزادانہ طور پر اُس نے ایسا کیا، یا پھر در پردہ اُس کے خاندان کو دھمکا کے اُسے زبردستی لا کر بیٹھایا گیا۔‘‘
ڈاکٹر مہیش کہتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی کسی بھی شخص کا ذاتی فعل ہے بشرطیکہ وہ اپنی مرضی سے ایسے کرے، مگر ملک کے قوانین زبردستی کی اجازت نہیں دیتے۔ انھوں نے کہا کہ حقائق جاننے کے لیے نجی ٹی وی چینل کے متنازع پروگرام سے منسلک افراد کا احتساب بھی ضروری ہے۔
’’اس بات کا پتا لگانے کی ضرورت ہے کہ میڈیا والوں کو قبل از وقت علم تھا یا نہیں کہ وہ لڑکا زبردستی اپنا بیان دے رہا ہے یا نہیں۔ اگر انھیں پہلے سے معلوم تھا اور پھر بھی ایسا کیا گیا تو پھر یقیناً میڈیا کا کردار صحیح نہیں ہے۔‘‘
وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی ہم آہنگی اور عیسائی برادری کے ایک مرکزی رہنما ڈاکٹر پال بھٹی کہتے ہیں کہ ٹی وی چینل پر ہندو لڑکے کے مذہب تبدیل کرنے کے براہ راست مناظر کے حقائق کا جائزہ لیا جا رہا ہے جب کہ پارلیمان میں ایسی تجاویز بھی زیرغور ہیں جنھیں قانونی شکل دینے سے ملک میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتیں طویل عرصے سے امتیازی سلوک کی شکایت کرتی آئی ہیں اور حقوق انسانی کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں ان مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ ملک میں رائج بعض متنازع قوانین کو اقلیت مخالف قرار دے کر ان میں اصلاحات کا مطالبہ کرتی رہیں ہیں۔
لیکن ناقدین کے بقول بنیاد پرست مسلمانوں کے ڈر سے کسی بھی سیاسی حکومت نے تمام تر دعوؤں اورانتخابی وعدوں کے باوجود سنجیدگی سے اقلیتوں کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کی جرأت نہیں کی جس کے باعث عمومی صورت حال بد سے بد تر اور پاکستان میں عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ مہینوں میں ملک کے بعض حصوں خصوصاً اندرون سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے ان سے شادی کرنے کے واقعات اور بلوچستان میں ہندو تاجروں کے خلاف اغوا برائے تاوان کی واردتوں میں اضافے نے پاکستان کی ڈھائی فیصد ہندو برادری کو پہلے ہی سخت پریشان کر رکھا ہے۔
قبول اسلام کے ٹی وی مناظر پر اقلیتوں کے تحفظات
Posted on Jul 30, 2012
سماجی رابطہ