سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ اینٹی ہائیڈروجن ایٹم کو 16منٹ تک مقید رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ حیران کن پیشرفت مادے کی ضد یعنی اینٹی مَیٹر کا بھید کھولنے کے سلسلے میں اہم سنگ میل ہے۔
جب کوئی ذرہ یا پارٹیکل اپنے ضد یا اینٹی پارٹیکل سے ٹکراتا ہے تو روشنی کے ایک چھوٹے سے جھماکے کے ساتھ یہ دونوں فنا ہوجاتے ہیں۔ اب سے 14 بلین سال پہلے بِگ بینگ کے وقت ایک نظریے کے مطابق مادہ اور ضدِ مادہ برابر مقدار میں وجود میں آیا تھا۔ تاہم اگر یہ توازن قائم رہتا تو یہ کائنات، جس میں آج ہم زندہ ہیں، اپنا وجود کھو چکی ہوتی۔
نامعلوم وجوہات کی بناء پر قدرت نے مادے کو اس کی ضد پر فوقیت دی اور آج اینٹی میَٹر بہت ہی نایاب ہے۔ پارٹیکل فزکس یا ذراتی طبیعیات میں مادے اور اس کی ضد کے درمیان یہ عدم توازن ایک ایسا معمہ ہے، جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
یورپی ایٹمی تحقیقی ادارے ’یورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ‘ CERN میں جاری الفا نامی تجربے کے ایک ترجمان جیفری ہینگسٹ Jeffrey Hangst کے مطابق:’’ ہم اینٹی ہائیڈروجن ایٹم کو ایک ہزار سیکنڈز تک قید رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم نے صرف چند ہی ایسے ذرات کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، تاہم یہ دورانیہ اس ذرے پر تجربات کے لیے کافی ہے۔‘‘
سائنسی جریدے ’نیچر فزکس‘ میں چھپنے والی اس اسٹڈی میں محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے قریب 300 اینٹی ایٹمز کو قید کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ سائنسدانوں نے سرن میں موجود ہائی انرجی ایکسیلریٹر کے ذریعے یہ اینٹی ایٹم تیار کیے، جس کے بعد انہیں مطلق صفر یا Absolute Zero درجہ حرارت کے قریب ترین درجہ حرارت پر جما دیا گیا۔ اس کا مقصد لیزر مائیکرو ویو اسپیکٹروسکوپی کے ذریعے ان ساکن ذرات کے خواص کا ہائیڈروجن ایٹم سے موازنہ کرنا ہے۔
الفا ایکسپیریمنٹ پر کام کرنے والی اسی ٹیم نے گزشتہ برس کے آخر میں اینٹی میٹر ایٹمز کو ایک سیکنڈ کے کئی ہزارویں حصے کے لیے قید کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تب اینٹی ایٹم کو برقرار رکھنے میں یہ پہلی کامیابی تھی۔ تاہم اس کے برقرار رہنے کا دورانیہ اس ذرے کے جائزے کے لیے درکار تجربات کے لیے ناکافی تھا۔ نئی کامیابی اس دورانیے میں پانچ ہزار گنا اضافے کی ہے، جس کے بعد یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایٹم کی ضد یا اینٹی ایٹم پر اہم تجربات کیے جا سکیں۔
سائنسدانوں کی طرف سے قید کیے جانے والے ان اینٹی ایٹمز کے طبعی خواص کے حوالے سے جانچ پڑتال بہت جلد شروع کر دی جائے گی اور ممکنہ طور پر رواں برس کے آخر تک اس پر کام مکمل کر لیا جائے گا۔
سائنسدان کائنات کے وجود کا بھید کھولنے کے قریب تر
Posted on Jun 16, 2011
سماجی رابطہ