سندھ پاکستان کے چارصوبوں میں سے ایک اہم صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائےسندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔ آب و ہوا ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (باالخصوص مئی۔جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (باالخصوص دسمبر۔جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاً سالانہ سات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاں برف باری ہوتی ہے۔ سندھ کی تاریخ زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے ۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنہوں نےپانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی، اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میں شاہرایں پختہ تھیں، اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہوگئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائےسرسوتی اور دریائے گنگا کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نے ہندوستان کے مذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کےلئے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلباء نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔ حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے۔ Kalhora Period Architecture جسکے مولّف ہیں سید حاکم علی شاہ بخاری۔ مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔ ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنھیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خودبخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈرات، پراچین بھارت کے مندر اور جنوبی امریکہ میں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔ سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کےلئے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہوسکا کہ وہ ہندوستانی فنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کےلئے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟ زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کےلئے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔ گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کی مسجد جو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اسکی تعمیرِ نو ہوئی ہے کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کےلئے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کہ کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔
سندھ
Posted on Feb 25, 2011
سماجی رابطہ