سائنس دانوں نے ایک نادر تکنیک استعمال کر کے دس ارب سال قبل سیاہ توانائی (dark energy) کی ماہیت جاننے کی کوشش کی ہے۔
انھیں توقع ہے کہ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ یہ توانائی کس طرح کائنات کے تیزی سے پھیلنے کا باعث بن رہی ہے۔
اس تکنیک میں کویزار (quasar) نامی دور افتادہ روشن خلائی اجسام کی مدد سے خلا میں ہائیڈروجن گیس کے بادلوں کے پھیلاؤ کا نقشہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان بادلوں کی تقسیم کے تھری ڈی نقشے کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاہ توانائی کے اثر کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس تحقیق پر مبنی ایک مقالہ جریدے ایسٹرانومی اینڈ ایسٹرفزکس میں شائع ہوا ہے، جسے بین الاقوامی ماہرینِ فلکیات کی ایک ٹیم نے تحریر کیا ہے۔ اس ٹیم کو ’باس‘ ٹیم کہتے ہیں۔
اس ٹیم کا حاصل کردہ نیا ڈیٹا تخلیقِ کائنات کے نظریے کے ساتھ عمدگی سے مطابقت رکھتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نئی بننے والی کائنات میں سیاہ توانائی کا نمایاں کردار نہیں تھا۔ اس وقت کششِ ثقل اتنی طاقتور تھی کہ اس نے کائنات کے پھیلاؤ کو سست کر دیا تھا۔ البتہ بعد میں سیاہ توانائی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آ گئی اور اس نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا۔
باس ٹیم کے رکن ڈاکٹر میتھیو پائیری نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’ہم سیاہ توانائی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ بذاتِ خود خلا کی خصوصیت ہے۔ جب خلا زیادہ ہو گی تو توانائی بھی زیادہ ہو گی۔‘
(واضح رہے کہ خلا یہاں جگہ یا مکان کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔)
ڈاکٹر پائیری نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’سیاہ توانائی ایک ایسی چیز ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ جوں جوں کائنات پھیلتی جاتی ہے، اس سے مزید خلا معرضِ وجود میں آتی ہے، جس سے مزید سیاہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سیاہ توانائی کششِ ثقل پر قابو پا کر کائنات کے پھیلاؤ کے رفتار کو تیز تر کردیتی ہے۔
یہ دریافت کہ کائنات میں ہر چیز زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے علمِ فلکیات کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک ہے۔ لیکن سائنس دان اس وقت سے اب تک اس غیرمعمولی مظہر کی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک طریقہ جو استعمال کیا جا رہا ہے اسے بیریون اکوسٹک آسیلیشنز (baryon acoustic oscillations) کہتے ہیں۔
اس تکنیک میں ان لہروں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو بگ بینگ کے بعد کی کائنات میں بکھر گئیں، اور بعد ازاں ٹھنڈی ہو کرمادے کی شکل میں منجمد ہو گئیں۔
آج یہ ارتعاش کہکشاؤں کے پھیلاؤ میں ایک ’ترجیح شدہ پیمانے‘ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اور ان کہکشاؤں اور دوسرے خلائی اجسام کی تعداد میں ہر پچاس کروڑ نوری سال کے فاصلے کے بعد معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
یہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جسے ایک معیاری پیمانے کی شکل میں کائنات کا جغرافیہ جاننے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ کہکشائیں اتنی دور ہیں کہ انھیں دوربین سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس لیے باس ٹیم نے کائنات کی نقشہ بندی کے لیے کویزار استعمال کیے۔
کویزار انتہائی دور واقع کہکشائیں ہیں جہاں ایک عظیم الجثہ بلیک ہول زبردست مقدار میں تابکاری خارج کرتا ہے۔ یہ تابکاری زمین سے دیکھی جا سکتی ہے۔
جب یہ تابکاری خلا میں موجود ہائیڈروجن گیس کے بادلوں سے گزرتی ہے تو اس کی ماہیت میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے، جس سے ان بادلوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
باس کی ٹیم نے پچاس ہزار کے قریب کویزاروں کا مشاہدہ کر کے ہائیڈرجن کی تقسیم کا تفصیلی نقشہ مرتب کیا ہے جو گیارہ ارب نوری سال دور تک مشتمل ہے۔
جب سائنس دانوں نے اس نقشے کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں کہکشاؤں کی تقسیم کا ایک ترجیحی پیٹرن موجود ہے۔
چوں کہ روشنی ایک مخصوص رفتار سے سفر کرتی ہے اس لیے مثال کے طور پر ایک ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع کوئی کہکشاں ہمیں اس حالت میں نظر آتی ہے جس حالت میں وہ ایک ارب سال قبل تھی۔
بوس کے سائنس دان اس تفصیلی نقشے کی مدد سے نہ صرف دور دراز فاصلوں پر موجود کہکشاؤں کا جائزہ لے رہے ہیں بلکہ اس سے انھیں ماضیِ بعید کے زمانوں کی تصویر بھی مل رہی ہے۔ وہ اس تصویر کی مدد سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا کششِ ثقل اور سیاہ توانائی اسی طریقے سے روبہ عمل ہیں جیسے کہ کائنات کے نظریے میں پیش گوئی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر پائیری اپنے انکشافات کو ایک رولر کوسٹر کی تمثیل کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ’بگ بینگ کے وقت سے کائنات کا پھیلاؤ سست پڑ رہا تھا، پھر سات ارب سال پہلے یہ عمل اپنے عروج پر پہنچ کر رک گیا اور وہاں سے اس کی رفتار ایسے بڑھنے لگی جیسے کسی نے ایکسیلیریٹر پر پاؤں رکھ دیا ہو۔‘
باس نے اپنی تحقیق میں ابھی ایک تہائی فاصلہ طے کیا ہے۔ اگلے چند برسوں میں اس کا مشن یہ ہے کہ پندرہ لاکھ کہکشاؤں اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار کوازروں کے مقام کا نقشہ تیار کیا جائے۔
سیاہ توانائی کا رولر کوسٹر
Posted on Nov 14, 2012
سماجی رابطہ