فرانس اور سوئنررلینڈ کی سرحد پر زمین کی گہرائی میں واقع پارٹیکل فزکس کی سب سے بڑی اور مہنگی تجربہ گاہ کو کئی لوگ خدا کی تلاش کرنے والی ایک لیبارٹری کے طور پر بھی دیکھتے ہیں ۔ اس تجربہ گاہ میں کام کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا جس میں اب تک دنیا بھر سے دس ہزار سے زیادہ سائنس دان حصہ لے چکے ہیں۔ اس لیبارٹری میں زیادہ تر گاڈ پارٹیکل پر تحقیق ہوتی رہی ہے جسے تخلیق کائنات کا مرکزی کردار سمجھاجاتا ہے۔
جوہری طبعیات کی سب سے بڑی اور جدید تجربہ گاہ ایل ایچ سی کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہیں اپنے طویل تجربات کے دوران ایسے شواہد ملے ہیں جن سے گاڈ پارٹیکل کی موجودگی کا اشارہ ملتا ہے۔
گاڈ پارٹیکل یا خدائی صفات کے حامل ذرات کی امکانی موجودگی پر سائنس دانوں کو دو الگ الگ ٹیمیں ایک عرصے سے کام کررہی تھیں۔ 13 دسمبر کو ایک پریس کانفرنس میں سائنس دانوں نے اپنی بریفنگ میں کہا ہے کہ ماہرین کی ایک ٹیم کو کائنات کے سب سے چھوٹے ذرے کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں ۔ اس ذرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کا ئنات کے بننے میں اس کا کلیدی کردار ہے۔
گاڈ پارٹیکل کی موجودگی کا انکشاف پارٹیکل فزکس کے ماہرین کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ان کا کہناہے کہ اس سے کائنات کی تخلیق کے سربستہ راز سےپردہ اٹھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اطالوی سائنس دان فابیولا گیانوٹی ، جو تحقیقی ٹیم اٹلس سے منسلک ہیں، کہناہے کہ توانائی کے انتہائی کم سطحوں پر گاڈ پارٹیکل کی موجودگی کے کچھ شواہد حاصل ہوئے ہیں۔ ان تجربات کے دوران حاصل ہونے والے اعدادوشمار کا تفصلی جائزہ لیا جارہا ہے جس کے حتمی نتائج اگلے سال جاری کیے جائیں گے۔
کائنات میں آپ کو ان گنت چیزیں، ان کے دل فریب رنگ اور کرشمے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ لاتعداد چیزیں تو ایسی ہیں جو انسانی آنکھ سے اوجھل ہیں۔ انسان اپنے شعور کے ابتدائی دور سے یہ جاننے کی جستجو کررہا ہے کہ کائنات کس طرح بنی تھی اورچاند ستارے اور کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔
بہت عرصہ پہلے سائنس دانوں نے یہ معلوم کرلیاتھا کہ کائنات میں موجود ہر چیز اس مختصرترین اکائی پر قائم ہے جسے ایٹم کہاجاتا ہے۔ ہر چیز کا ایٹم تین اجزا سے مل کربناہے جسے الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان کہا جاتا ہے۔ مگر ان سب کی اصل ایک ہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ ایٹم از خود وجود میں نہیں آئے۔ بلکہ انہیں ایک قوت نے انہیں اکھٹا ہونے میں مدد دی۔ یہ قوت اس ذرے میں ہے جسے گارڈ پارٹیکل کہاجاتا ہے۔ یعنی خدائی صفات رکھنے والا ذرہ۔
جدید جوہری طبعیات کا یہ نظریہ سب سے پہلے 1964ء میں برطانیہ کی ایڈن برگ یونیورسٹی کے ایک سائنس دان پیٹر برگ ہیگزنے پیش کیا۔ اور انہی کے نام پر اس تصوراتی ذرے کو ہیگز بوسن کا نام دیا گیا۔
اس نظریے میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جس کا کوئی حجم ہے، چاہے وہ ٹھوس ، مائع یا گیس ہے۔اس کے اندر ’گاڈ پارٹیکل‘ موجودہے۔ کیونکہ گارڈ پارٹیکل میں ہی وہ توانائی اور کشش موجود ہے جو چیزوں کو اسی طرح اپنی جانب کھینچ لیتی ہے جسے کسی مقبول لیڈر یا اسٹار کی مقناطیسی کشش لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہے۔ اور ان کے گرد ایک مجمع لگ جاتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ایٹم کی مثال بھی اسی مجمع کی سی ہے، جسے گارڈ پارٹیکل نے اکھٹا کررکھاہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ تقریباً 15 ارب سال قبل کائنات ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں تھی ۔ جو اپنی اندرونی قوت کے دباؤ سے پھٹ کر بکھر گیا۔ پھر کئی کروڑ سال تک کائنات میں صرف توانائی بکھری رہی اور پھر رفتہ رفتہ درجہ حرارت کم ہونے کے بعدوہ سورج چاند ستاروں اور دوسری اشکال میں ڈھل گئی۔ مگر تشکیل کے اس عمل میں گاڈ پارٹیکل نے مرکزی کردار ادا کیا ۔ اب وہ کئی برسوں سے اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔
گارڈ پارٹیکل کے نظریے کی تصدیق کے لیے دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے بڑی تجربہ گاہ 10 ارب ڈالر کی لاگت سے فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پرزیر زمین قائم کی گئ تھی ۔جسے لارج ہائیڈرون کولائیڈر یا ایل ایچ سی کہاجاتا ہے۔ یہ لیبارٹری تقربیاً27 کلومیٹر لمبی سرنگ میں واقع ہے اور زمین کی سطح سے اس کی گہرائی574 فٹ ہے۔ یہاں کام کا آغاز ستمبر2008ء میں ہوا تھا اور اس لبیارٹری میں کیے جانے والے تجربات میں دنیا کے ایک سوسے زیادہ ممالک کے سائنس دان کام کرتے رہے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
چند ماہ پہلے اسی تجربہ گاہ نے روشنی سے بھی تیز رفتار ذرے نیوٹرینو کودریافت کرکے آئن سٹائن کے اس شہرہ آفاق نظریے کو غلط ثابت کردیاتھا کہ اس کائنات کی کوئی چیز روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی۔
گاڈ پارٹیکل کی موجودگی کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے سائنس دانوں کی ٹیموں نے اٹلس اور سی ایم ایس کے نام سے الگ الگ تجربات کیے۔
برطانیہ کی لیور پول یونیورسٹی میں پارٹیکل فزکس کی ایک سائنس دان ڈاکٹر تارا شیرس کا کہناہے کہ گارڈ پارٹیکل کی تصدیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم نے کائنات کی تخلیق کا راز پالیا ہے۔
تخلیق کائنات کے راز سے پردہ اٹھ گیا
Posted on Dec 14, 2011
سماجی رابطہ