’گھوڑا کھیرے کا سلاد نہیں کھاتا‘ یوہان فیلپ رِائز نے آج سے 150 برس قبل اپنے بنائے ہوئے ٹیلیفون پر جب یہ پیغام بھیجا تو اس جرمن سائنسدان کو اندازہ بھی تھا کہ یہ الفاظ رابطہ کاری کے میدان میں ایک انقلاب کے مساوی ہیں۔
یوہان فیل رائز نے اپنی اس ایجاد کو اپنے ایک لیکچر میں پیش کیا جس کا عنوان تھا، ’’گیلوانک بجلی کے ذریعے آوازوں کو کسی بھی فاصلے تک لے جانے کے بارے میں‘‘۔ رائز نے یہ لیکچر 26 اکتوبر 1861ء کو فرینکفرٹ کی فزیکل سوسائٹی میں پیش کیا۔
27 سالہ جرمن سائنسدان رائز نے اپنے پیغام میں گھوڑے اور سلاد کے بارے میں یہ جملہ جان بوجھ کر استعمال کیا، تاکہ پیغام سننے والا بولے گئے جملے کے ہر ایک لفظ کوسنے بغیر محض اندازے کے ذریعے اسے نہ سمجھ سکے۔ یوہان فیلپ رائز نے اس آواز کو سننے کے لیے لکڑی کا ایک ’مصنوعی کان‘ بنایا جس میں ساسیج کے ایک خول پر پلاٹینم کی مہین پٹیاں لگا کر ایئرڈرم بنایا گیا تھا۔
گوکہ رائز کی اس ایجاد کو محدود پیمانے پر تو پزیرائی ملی، مگر وہ اس سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر پایا۔ اس کا بنایا ہوا فون صرف آواز بھیج سکتا تھا، لہذا دوسری طرف موجود فرد فوری طور پر اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ اس سے قبل کے فیلپ رائز اپنی اس ایجاد کو مزید بہتر بنا پاتا، جنوری 1874ء کو تپ دق کے باعث اس کا 40 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔
تاہم ٹیلفون کے حوالے سے اصل انقلاب اس وقت شروع ہوا جب 1870ء کی دہائی کے آخر میں امریکی سائنسدان الیگزینڈر گراہم بیل نے اپنا پہلا تجارتی ٹیلفون پیش کیا۔ اس کے ذریعے فون کرنے کے لیے آپ فون کے دو اجزاء کو کان اور منہ سے لگانا پڑتا تھا۔
ٹیلیفون کی 150 ویں سالگرہ
Posted on Oct 26, 2011
سماجی رابطہ