گزرے لمحوں ( پاک اولڈ )
گزرے لمحوں کی الجھی ہوئے ڈور کے اس طرف
خواب میرے جہاں مٹی میں تھے
بارشوں نے وہاں گھاس اتنی اگا دی
کوئی رہنما سی علامت ، نشانی کچھ بچا ہی نہیں
کچھ بچا ہی نہیں کے کسی یاد کی
کوئی الجھی ہوئی گرہ کھولتے !
وہ سرا ڈھونڈتے !
ایک بھیدوں بھرا اور زمانوں پے پھیلا ہوا
وہ سرا ڈھونڈتے !
جو کہیں خواب اور اس کی تعبیر کے درمیان کھو گیا !
ہو چکی ہیں بہت ہجر کی بارشیں
دن بہت جا چکے !
خواب میرے جہاں دفن مٹی میں ہیں
اب وہاں ہر طرف گھاس ہی گھاس ہے
اور اس گھاس میں سرسراتا ہوا
سانپ سا ایک ڈر ہے ،
کہیں یہ نا ہو !
ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سرا مل بھی جائے !
وہ گرہ کھل بھی جائے !
تو لمحوں کی الجھی ہوئے ڈور کے اس طرف
کچھ نا ہو . . . . . . ! ! !
گزرے لمحوں ( پاک اولڈ )
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ