مرحلہ شوق

مرحلہ شوق

ہر مرحلہ شوق سے لہرا کے گزر جا
آثار تلاطم ہوں تو بل کھا کے گزر جا

بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سن
فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گزر جا

مایوس ہیں احساس کی الجھی ہوئی راہیں
پائل دل مجبور کی چھنکا کے گزر جا

کہتی ہیں تجھے مہ کدہ وقت کی راہیں
بگڑی ہوئی تقدیر کو سمجھا کے گزر جا

بجھتی ہی نہیں تشنگی دل کسی صورت
اے ابر کرم آگ ہی برسا کے گزر جا

کانٹے جو لگیں ہاتھ تو کچھ غم نہیں ساگر
کلیوں کو ہر اک گام پے بکھرا کے گزر جا

Posted on Feb 16, 2011