اجنبی اجنبی
ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی
راہ بھی اجنبی موڑ بھی اجنبی جائیں ہم کدھر اجنبی اجنبی
زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی دے کے درد جگر اجنبی اجنبی
ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو آشیاں حسرتوں سے سجایا تھا جو
ہے چمن میں وہی آشیاں آج بھی لگ رہا ہے مگر اجنبی اجنبی
کس کو معلوم تھا دن یہ بھی آئینگے موسموں کی طرح دل بھی بدل جائینگے
دن ہوا اجنبی رات بھی اجنبی ہر گھڑی ہر پہر اجنبی اجنبی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ