بھیگی پلکوں کا اشارہ ، یاد آج بھی ہے
بھیگی پلکوں کا اشارہ ، یاد آج بھی ہے
وہ کھلی کھڑکی سی پردے کا ہٹنا ، یاد آج بھی ہے
وہ بھیگا بدن ، وہ زلف گھٹاؤں سی
ان زلفوں کا ہونا جدا چہرے سے ، یاد آج بھی ہے
ڈر کر زمانے سے چھپا لینا خود کو یاد آج بھی ہے
کانپتے ہاتھوں سے کرنا سلام انکا ، یاد آج بھی ہے
وہ تڑپ آنکھوں کی ، اور وقت کی بےچینیاں
کانپتے ہونٹوں کی او بےبسی ، یاد آج بھی ہے
سونی راہوں میں پکارنا ، وہ سیج یاد آج بھی ہے
شرما کر ہتھلیوں سے چہرہ چُھپانا ، یاد آج بھی ہے
نظریں اٹھا کے دیکھنا ، پھر پلکوں کو جھکا لینا
ان لمحوں کی وہ کشش ، یاد آج بھی ہے
تاروں کی چھاؤں میں اک سایہ ، یاد آج بھی ہے
گرم سانسوں کی وہ سرِسراہٹ ، یاد آج بھی ہے
یہ روح کی بےچینیاں ، یہ ستم یادوں کا
زخم پرانا ہے مگر ، کیوں ہرا آج بھی ہے
بھیگی پلکوں کا اشارہ ، یاد آج بھی ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ