بھلا دیجیئے مجھے
ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجیئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجیئے مجھے
ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں ایک بار بتا دیجیئے مجھے
میرے سوا بھی ہے کوئی موضوع گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجیئے مجھے
میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجیئے مجھے
کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم سزا دیجیئے مجھے
قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گوہر کے ساتھ
گہرے سمندروں میں بہا دیجیئے مجھے
شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجیئے مجھے
جلاتے دنوں میں خود پس دیوار بیٹھ کر
سائے کی جستجو میں لگا دیجیئے مجھے
" شہزاد " یوں تو شعلہ جان سرد ہو چکا
لیکن سلگ اٹھوں تو ہوا دیجیئے مجھے
بھلا دیجیئے مجھے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ