ڈر گئے ہیں
ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں
یہ پھول خوشبو کی رائیگانی سے ڈر گئے ہیں
یہ رسم رخصت نبھائے کیسے یہ سوچتے ہیں
تمہاری آنکھوں میں آئے پانی سے ڈر گئے ہیں
یہ تیر جتنے فضا میں آ کر ٹھہر گئے ہیں
کسی پرندے کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں
ابھی تو دل کو اُداس کرتی نہیں ہیں شامیں
ابھی سے کیوں غم کی حکمرانی سے ڈر گئے ہیں
ہمیں بھی ساحل پے گیت لکھنے تھے سیپیوں سے
مگر ہواؤں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ